آصف جاوید
ملک کو قائم ہوئے 70 سال گزر گئے، ہم بطور قوم ابھی سماجی ارتقاء کے ابتدائی مراحل ہی طےکررہے ہیں۔ ۔ یہاںسماجی ارتقاء سے ہماری مراد ذہنی ارتقاء آگہی، فکر ی و شعور ی ارتقاء ہے۔سماج میں ارتقاء اور تبدیلی ، سوچ میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہے، اور سوچ کا تعلّق انسانی دماغ کے فکر ی و شعور ی ارتقاء سے ہے، سماجی حرکت کی ڈائنمکس کے عوامل بے شمار ہیں ان کی کوئی کی کوئی حد نہیں ہے۔
انسانی رویّے، حسد، جلن، پسند ، نا پسند، خوش گمانی، بدگمانی، محبّت، نفرت، رقابت، دشمنی، تعصّب، بھائی چارہ، ہمدردی، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب سماجی حرکیات کو قائم رکھنےوالے سینکڑوں عوامل کی مثالیں ہیں۔ مگر سماج کو بدلنے اور اعلیٰ مقام پر لے جانے کا ایک ہی عامل ہے ،اور وہ ہے، انسان کا فکری و شعوری ارتقاء، جو سماجی علوم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
غربت اور جہالت، بھی سماجی ارتقاء کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
انسان اور سماج ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ انسان کی تکمیل، سماج کی تکمیل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔فرد سماج کی بنیادی اکائی ہے، سماجیات ہی انسان کی سماجی زندگی کے اصول اور ضوابط طے کرتی ہے۔ سماج کے ایک ذمہ دار فرد ہونے کے ناطے انسان کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے ، سماجیات ہی انسان میں اس حقیقت کا ادراک پیدا کرتی ہے۔
غیر طبعی یا سماجی علوم کی فہرست بہت طویل ہے، پہلے صرف ادب، لسّانیات، معاشیات، جغرافیہ، تاریخ، قانون ، فلسفہ، سیاسیات، نفسیات، مذہب اور عمرانیات ، ریاضی، مابعدالطبعیات، اینتھروپالوجی، آرکیالوجی، جیسے علوم ہی سماجی علوم کی فہرست میں شامل تھے۔ مگر اب طبعی یا سائنسی علوم کی ترویج اور حاصل ہونے والی برکات کے سبب ، ماہرین تعلیم، مفکّرین، دانشوروں کی جانب سے کئے گئے فیصلوں کے مطابق سماجی علوم کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا ہے۔
اب انسانی زندگی کے معاملات سے متعلقہ علوم کی بھی سائنسی و عقلی توجیہات پیش کی جاتی ہیں، ریاضیاتی ماڈلنگ کی جاتی ہے،انٹرنیٹ اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے انسانی زندگی اور سماج کا حصّہ بننے کے بعد اب کرمنالوجی، شماریات، اکائونٹنگ، پبلک و بزنس ایڈمنسٹریشن ، فنانس، ہیومن ریسورس مینیجمنٹ، مارکیٹنگ، وغیرہ جیسے مضامین کو بھی سوشل سائنسز کا کا حصّہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔
سماجی علوم نے بہتر معاشرے کی تشکیل میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ، ماہرین تعلیم، مفکّرین و دانشوروں کا خیال ہے کہ سماجی علوم کے مطالعہ سے انسان کے اخلاق و کردار میں بہتری پیدا کی جاسکتی ہے ۔ سماجی علوم کی ترقی وترویج سے مجرمانہ غفلت ہمیں تباہی کے دہانے پر لے ائی ہے۔ لہٰذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم من حیث القوم ، سماجی علوم کے حوالے سے اپنے رویے کو درست کریں، تاکہ ہم ترقّی کرسکیں۔
سماجی علوم کو کم تر اور کم اہم سمجھنے کی وجہ سے ہمارا سماج ناکارہ، تعلیمی نظام تباہ ، سیاسی نظام ناکام، منصوبہ بندی پست تر، ، معیشت کمزور تر ، جرائم بلند تر ، اخلاقی رویّے پست ترہیں ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دُنیا میں سماجی علوم نے اطلاقی یا طبعی سائنس سے زیادہ انقلاب برپا کیاہے۔ ارسطو، افلاطون، اسٹیفن ہاکنگ جیسے فلسفی و دانشوروں نے سماجی علوم کی بدولت ہی ہمیں شعور کی نئی راہیں دکھائی ہیں۔ سماج کو ترقّی دینے کے لئے ہمیں اپنے نوجوانوں کو شعور دینا ہوگا۔ اور شعور کا ارتقاء سماجی علوم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
♦
2 Comments