برطانوی دارالحکومت لندن میں ہزاروں افراد نے نسل پرستی، اسلاموفوبیا اور نفرت انگیزی کے خلاف ہفتے کو مارچ کیا۔
برطانیہ میں چند ہفتوں سے آن لائن اور آف لائن ایسے پمفلٹس دکھائی دیے، جن میں مسلمانوں پر حملوں کی ترویج کی جا رہی تھی۔ “مسلمان کو سزا دو “نامی اس نفرت انگیز مہم میں لوگوں کو مسلمانوں پر حملوں کے لیے اکسایا جا رہا تھا اور سلسلے میں تین اپریل کو حملوں کا دن تک مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم اس مہم کے خلاف ہزاروں برطانوی شہری سڑکوں پر نکل آئے۔
احتجاجی مظاہرہ لندن کے مرکزی علاقے آکسفورڈ اسٹریٹ سے شروع ہوا ور مشہور علاقے پکیڈیلی سرکس سے ہوتا ہوا ٹریفہالگر اسکوائر کی طرف بڑھا۔ اس مارچ میں مختلف رنگوں، نسلوں، مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ ليا۔ مظاہرين نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھا، ان پر مندرجہ ذيل پيغامات درج تھے، ’ہم نسل پرستی کو مسترد کرتے ہیں‘، ’اسلاموفوبیا نامنظور‘، ’مہاجرین کو خوش آمدید‘، ’مہاجرین کی ملک بدریاں بند کرو‘ اور ’انسانوں میں تفریق، اب نہیں۔‘
یہ بات اہم ہے کہ برطانیہ سمیت یورپ بھر میں حالیہ کچھ عرصے میں مسلم مخالف اور مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور اسی تناظر میں مختلف یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف سخت بیانیوں کا استعمال کرنے والی تنظیموں اور تحریکوں کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوا ہے۔
لندن ہی میں چند ماہ قبل مسلمانوں سمیت غیر ملکیوں پر تیزاب کے حملوں کی اطلاعات بھی سامنے آئیں تھی، جب کہ نفرت انگیزی سے جڑے حملوں میں بھی اضافے کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
لندن میں سردی کی شدید لہر اور درجہ حرارت نکتہ انجماد سے کہی درجے نیچے گر جانے پر کہا جا رہا تھا کہ شاید اس مارچ میں شریک افراد کی تعداد پر فرق پڑے، تاہم موسمی حالات کا اس مظاہرے پر کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔
مارچ میں شریک ایک 24 سالہ طالبہ کیتھرین کا کہنا تھا، ’’ہم یہاں اس مارچ میں اس لیے شریک ہوئے ہیں تاکہ ایک واضح پیغام دیا جائے اور وہ پیغام یہ ہے کہ ہم اس شہر اور اس ملک میں نسل پرستی قبول نہیں کریں گے‘‘۔
لندن میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی فرید قریشی کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں جس انداز سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات میں اضافہ ہوا ہے، ایسے میں یہ مارچ نہایت ضروری اور بروقت ہے، تاکہ نفرت انگیزی کو ہوا دینے والوں کو روکا جا سکے۔
سوال یہ ہے کہ” مسلمان کے خلاف سزا دو “ نامی پمفلٹ تقسیم کرنے پر برطانوی عوام نے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن کیا یہی عوام ان انتہا پسند مسلمان تنظیموں کی مذمت کرنے کے لیے اسی طرح کی ریلی نکالیں گے جو سیکولرازم کے نام پر شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں جن کی حرکتوں کی وجہ سے مسلمان مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
DW/News Desk
♦