آج میں ایک گنجان بازارسے گذر رہا تھا۔ اچانک مجھے ایک آواز سنائی دی۔ ‘سنو۔ ۔ ۔ ادھر آؤ۔ ۔ ۔ ’ میں نے اس آواز کو سنا ان سنا کردیا۔ میں نے دوبارہ چلنا شروع کیا، ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ پھر وہی آواز سنائی دی ‘ میں تم سے مخاطب ہوں۔ ۔ تم کہاں جا رہے ہو۔ ۔؟۔
’ میں رک گیا اور اس آوازکی سمت ڈھونڈنے لگا۔ مجھے تلاش کرنے میں دیر نہ لگی، دیکھا کہ درخت کی اوٹ میں بیٹھا شخص مجھے بُلا رہا تھا۔ اجنبی شخص ہونے کی وجہ سے میں نے اس کی طرف جانے کے بجائے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا دئے۔ دو ہی قدم چلا تھا کہ اس نے پھر مجھے آواز دی‘ چوہے رک جاؤ۔ ۔ ۔ اب میں رک گیا اور حیرانی سے اسے گھورنے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ کون ہے اور مجھے کیسے جانتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر میرے قدم اس کی طرف بڑھ گئے۔
قریب جا کر دیکھا تو وہ باریش بزرگ تھا۔ میں جب پاس پہنچا تو اس نے مجھے بیٹھنے کا کہا ۔ ۔ ۔ میں بغیر کچھ سوچے قریب پڑے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ میرے چہرے پر حیرانی عیاں تھی۔ مجھے اس حال میں دیکھ کر بزرگ نے کہا ‘ تم حیران و پریشان نہ ہو۔ ۔ تم مجھے جانتے ہو۔ ۔ ۔ ’ یہ کہتے ہوئے وہ پانی سے بھرا کٹورا غٹاغٹ پی گیا۔۔
بزرگ نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے کہا ‘ پیو گے۔ ۔ ۔؟’ میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا ‘مجھے پیاس نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔
پانی پینے کے بعد وہ مجھے مخاطب ہوا ‘ میں ایشور ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ ۔ ۔ تم اس جنم میں چوہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ تم پچھلے جنم میں کیا تھے مجھے وہ بھی معلوم ہے۔۔۔ ’ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔۔۔۔
مجھے حیران و پریشان دیکھ کر وہ پھر گویا ہوا ‘ تم پچھلے جنم میں بلے تھے۔ ۔ ۔ میں پسینے سے شرا بور اسے ہی تکے جا رہا تھا۔۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ‘ آآآپ پ پ پ ۔ ۔ ۔ ک ک کون ہو۔ ۔ ۔؟’ وہ پہلے مسکرایا اور پھر کہنے لگا ‘ میں ایشور ہوں ۔۔ تم پچھلے جنم میں کبھی کبھی میرے پاس آتے تھے۔ تم کو یہ بات یاد نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ تم یہ سب کچھ جان سکتے ہو۔ ۔ ۔ لیکن تم ڈرو نہیں۔ ۔ ۔ پریشان ہونا چھوڑو اور پرسکون ہو جاؤ۔۔ ۔ ۔ کیوں کہ میں پچھلے جنم میں بھی تمہارا خیر خواہ تھا ۔ ۔ ۔ دوست کی طرح۔ اور آج بھی میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔’ یہ کہتے ہوئے ایشور مجھے ماضی میں لے گیا ۔ ۔ ۔
یہ میرا پُنر جنم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے ایک ایک کرکے پچھلے جنم کی باتیں یاد آنے لگیں۔۔ پچھلے جنم میں بھی ایشور ایک درخت کے نیچے آسن لگائے بیٹھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میرے کانوں میں میری ہی کہی ہوئی بات نے سرغوشی کی۔ ۔ ۔ ۔ ‘میں بِلا نہیں بننا چاہتا۔ ۔ ۔’ ایشور کہنے لگا ‘ ٹھیک ہے تم اگلے جنم میں بلے نہیں ہو گے۔
ایشور نے مجھے باس دکھایا جو پچھلے جنم میں گدھا تھا، میرے دوستوں خرگوش اور کتے سے بھی ملوایا۔
اپنا ماضی یاد کرکے میری پریشانی اور خوف جاتا رہا ۔ ۔ ۔ میں سوچ میں گم اور دّکھی تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ میں من ہی من سوچ رہا تھا ۔۔۔ پچھلے جنم میں بلا بنایا اور اس جنم میں چوہا۔۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا انرت ( ظلم ) کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’
مجھے افسردہ دیکھ کر ایشور بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔’ میں ان سے کہنے لگا۔ ۔ ۔‘ آپ نے مجھے کیوں چوہا بنایا۔۔۔ کس پاپ یا گناہ کی سزا دی مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’ میں پھر کہنے لگا۔ ۔ ۔‘پچھلے جنم میں آپ سے میں نے کہا تھا کہ مجھے بلا نہیں بننالیکن اِس جنم میں مجھے چوہا بنا دیا ۔ ۔ یہ ظلم نہیں کیا آپ نے۔ ۔ ۔؟ ’۔۔۔۔۔ ایشور خاموش۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں پھر انہیں کہنے لگا ‘ آپ انسانوں سے زیادتی کرنا کب بند کریں گے۔۔۔ اگر آپ ایشور ہیں تو کیا جو جی میں آئیگا کرینگے ۔ ۔ ۔ ۔!؟ ایشور بدستور چپ
‘آپ نے میری طرح میرے دوستوں کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا، پچھلے جنم کی طرح ان کا یہ جنم بھی آپ نے ضایع کردیا۔ ۔ ۔ ۔’
مجھے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ایشور اب ضعیف ہوگیا ہے۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔ نظر کمزور ہو چکی ہے۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں پھر مخاطب ہوا ‘ ایشور۔ ۔ ۔ ۔ ایشور ۔ ۔ ۔ ۔’ وہ چونک گئے۔ ۔ ۔ ۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو میں کہنے لگا۔ ۔ ۔‘ تو میرا اور میرے دوستوں کا مستقبل کیا ہے۔ ۔ ۔ کیا ہم جانوروں کے شراپ ( بد دعا ) سے نکل سکیں گے یا ابھی اور بھٹکنا باقی ہے۔ ۔ ۔ ’ میری بات سن کر ایشور پھر خاموش ہو گیا۔ اس نے پھر اپنی آنکھیں موند لیں۔
میں نے پھر ان سے کہا۔ ۔ ۔‘ایشور میں اب انسان بننا چاہتا ہوں اس لئے مجھے اب کوئی راہ قلندری دکھا دے۔ ۔ ۔’ ایشور بیٹھے بیٹھے گہری نیند سو گئے اور میں ان کو جگانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔
یوں کرتے کرتے میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ میں نے دیکھا کہ میرا دوست بندر میرا مطلب ہے سیف مجھے جگا رہا تھا۔ اورمیرے جاگتے ہی اس نے مجھے آفس جلدی آنے کا باس کا بھیجا ہوا پیغام دیا۔
♦