تنقید اور معاشرہ

فرحت قاضی

چینی باشندوں کا کہنا ہے
’’
دشمن ہمارے بارے میں زیادہ بہتر رائے رکھتا ہے‘‘
؎
پنے کو ہر نوع کی تنقید سے بالاتر رکھنے کی خاطر بالادست طبقے نے مکڑی کا جو جالا بنا تھا اس میں اسے یقیناًاچھا خاصا وقت لگا ہوگا مگر جس چیزنے راقم الحروف کو اسے داد دینے پر مجبور کیا یہ تحریر پڑھنے کے بعد آپ بھی انگشت بدنداں رہ جاؤ گے۔
یہ طبقہ جوں جوں یہ ہالا بنتا گیا تو تنقید سے بالاتر ہوتا گیا۔
ہمارے پس ماندہ سماج میں ان تصورات کے زیر اثر آج بھی تنقید تو کیا اظہار رائے کوبھی ادب آداب کے خلاف گردانا جاتا ہے دو بندے کسی موضوع پر بات چیت میں مصروف ہیں ایک لڑکا آکر سنتا اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگتا ہے تو اسے صاف صاف کہ دیا جاتا ہے کہ دو بڑوں کے بیچ نہیں بولا کرتے ہیں۔
یا ایسے گھور ا جاتا ہے کہ وہ چپ چاپ وہاں سے کھسک جاتا ہے ۔
حاکم اور رعایا ،جاگیرداراور کاشتکار،آقا اور غلام،مالک اور ملازم کی جو درجہ بندی سماج میں پیدا ہوگئی تھی ان کے اثرات کنبہ میں بھی پہنچ گئے تھے اور وہاں شوہر جورو کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بھی حاکم کا روپ دھار لیتا تھا۔
شاید اسی لئے کہا گیا ہے۔
کہ حکمران طبقہ کے تصورات معاشرے پر حاوی ہوتے ہیں
رعایا،کاشتکار،غلام،ملازم اگر حاکم،جاگیردار،آقا اورمالک کے معاشی طور پر دست نگر تھے تو بیوی اور اولاد کا بھی یہی حال تھا مگر عمروں کے تفاوت سے بھی کام لیا گیا یہ ایک فطری عمل ہے کہ جنوری2000ء میں پیدا ہونے والا بچہ فروری2016ء میں جنم لینے والے سے عمر میں بڑا ہوگا۔
چھوٹا بڑے کی ایک غلط بات یا رائے کو برا نہیں کہے گا اور اگر تنقید کرے گا تو اسے بدتمیز اور بے ادب سمجھا جائے گا بڑے کے احترام کے نام پر اس سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے بڑا کتنا ہی برا کیوں نہ ہو بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بڑا ہے گویا بچے کو اوائل ہی میں سکھا دیا جاتا ہے کہ رائے کا کھلا اظہار اور تنقید معاشرے کو قبول نہیں ہیں۔
جب بچے کا ابتداء سے ہی یہ ذہن بنا لیا جاتا ہے تو پھر تمام زندگی وہ اس سے نہیں نکل سکتادیہات کے ماحول میں دیکھا ہوگا کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے سامنے چپ رہتا ہے۔
بیٹے باپ کے سامنے دم سادھے رہتے ہیں۔
بیوی شوہر سے دبے رہتی ہے ۔
بیوی اور بچے شوہر اور باپ پر تنقید سے گریز کرتے ہیں۔
نوجوان بوڑھوں کے سامنے خاموش رہتے ہیں اور کاشتکار اپنے جاگیردار آقا کے سامنے سر جھکائے احکامات اور گالیاں سنتے رہتے ہیں۔
ان معاشروں میں بڑے اور چھوٹے کے علاوہ پیشوں کے لحاظ سے بھی تنقید کی اجازت نہیں ہوتی ہے پیشوں کو درجہ بندی دے کر کچھ کو اچھا تو کچھ کو برا سمجھا جاتا ہے یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس پیشے سے سماج کو فائدہ پہنچتا ہے اور کون سا ترقی کی راہ میں رکاؤٹ ہے
دھقان،لوہار،کمہار،چمار،جولاہا،نائی، درزی وہ پیشے اور افراد ہیں جو ملک کی پیداوار میں بلاواسطہ یابالواسطہ حصہ لیتے ہیں اور اس کا ضروری جزو ہیں ۔
ان کی اہمیت کا اندازۃ اس سے لگائیں کہ کاشتکار نہیں ہوگا تو کھیت کیونکر فصل پیدا کرے گا
نائی نہ ہوگا تو ہمارے بال کون بنائے گا ۔
جولاہا نہ ہوگا تو کپڑا کہاں سے آئے گا۔
د رزی نہ ہوگا تو سردی اور گرمی سے بچنے کے لئے کپڑے کون سی کر دے گا ۔
چونکہ یہ ہمارے لئے کچھ پیدا کرتے ہیں تو ان کی طرف سے تنقید کا امکان تھا لہٰذا ان کی زبان بند رکھنے کے لئے ایک توان کو ذات پات نظام کے تحت نچلی ذات بنادیا سماج میں موجود گالیوں سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اور پھروڈیروں نے مقدس ہستیوں سے اپناسلسلہ نسب جوڑنے کے لئے ناموں کے آگے یا پیچھے القاب لگا دیئے تھے جو اس سے محروم رہ گئے تھے وہ یہ کمی حج سے پوری کرکے علاقے میں حاجی صاحب مشہور ہوکر تنقید سے مبرا ہوجاتے تھے۔
اپنی آراء کا برملا اظہار اور تنقید کے علاوہ عیب جوئی اور غیبت کے الفاظ بھی اہلیان علاقہ کے منہ بند رکھنے کے لئے کافی تھے کیونکہ تنقید اور خامیوں کی نشان دہی کو عیب جوئی کا نام بھی دیا گیا تھا پشتون سماج میں ان افراد پرتنقید کو مقدس ہستیوں کی ناراضگی مول لینے کے مترادف قرار دیا گیا تھا لہٰذا نتائج سے بھی خبردار کیا جاتا تھا چنانچہ پس پشت تنقید کرنے والا خود یاپھر اس کے خاندان کاایک فرد بیماری میں مبتلا ہوجاتا یا حادثے کا شکار ہوجاتا تو اسے تنقید سے منسوب کرکے اسے یاد بھی دلایا جاتا تھا۔
ایک صاحب حیثیت فرد یا کنبے پر اس کے روبرو تنقید جہاں جان کو جوکھوں میں ڈالنا تھا تو پس پشت عیب جوئی بھی سو احتیاط کے ساتھ کی جاتی تھی ہر ایک جانتا ہے کہ امیر شخص کے سامنے اس کے ہاتھ کسی بھی وقت دراز ہوسکتے ہیں چنانچہ تنقید کی راہ میں اس نوعیت کے خدشات بھی حائل رہتے تھے
ایک امیر، طاقت ور اور جابر کے عیوب اس کے سامنے بیان کرنے سے ہر ایک گھبراتا اور کتراتا ہے ایسے انسان کے خلاف پس پشت بولنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا ہے لہٰذا ایک عام شہری کے پاس اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک ہی موقع رہ جاتا ہے۔
ایک غریب ملازم اپنے مالک کے خلاف اسی وقت کچھ بول سکتا ہے۔
جب مالک موجود نہ ہو یا پھر وہ مرچکا ہو۔
مگر اس سے یہ حق بھی :
’’
مرنے والے کی برائیاں نہیں ہونی چاہیءں‘‘
کہ کر چھین لیا گیا
قدیم سماج میں اس کے بالا دست طبقات نے تنقید کی راہ جہاں ادب آداب، عمروں کے تفاوت، ناموں کے ساتھ لاحقہ،سابقہ اور الفابات، پس پشت برائی ،غیبت اور مرحوم کی برائی نہ کرنے کے نام پر روکی رکھی تو وہاں نقاد کو دشمن قرار دینے سے بھی یہی کام لیا گیا۔
ایک وڈیرے پر اس کا ایک رشتہ دار تنقید کرتا ہے تو یہ آپس کا معاملہ سمجھا جاتا ہے مگر اس کا کوئی حریف تنقید یا عیب جوئی کرتا ہے تو اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے کیونکہ ہر ایک کی زبان پر ہوگا کہ دیرینہ رقابت کا شاخسانہ ہے۔
حکومت،وزراء، سیاست دان اورمذہبی پیشوا یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں چنانچہ انتخابابی مہم ہو یا کوئی اور موقع ہوتا ہے تو یہ ثابت کرنے کی سعی کی جاتی ہے کہ اس پر جو الزامات لگائے گئے ہیں اس میں رقابت اور دشمنی کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
چنانچہ ملک میں دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے بندے مرتے اور زخمی ہوتے ہیں یاتین چار سال گزرنے پر بھی کچھ ترقیاتی کام سامنے نظر نہیں آتا ہے اورتنقید ہوتی ہے تو اس کا تمام الزام ہمسایہ ملک یا اپوزیشن یا پھر سابق حکومت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو تو عام طور پر دشمن کا لفظ ہی استعمال کرتے دیکھا گیا ہے۔
دشمن کہنے کا فائدہ یہ ہے کہ پھر پارٹی کارکن تنقیدکو دشمنی سمجھ کر اہمیت نہیں دیتے ہیں اور رہنماء اپنے کارکنان کو ان سے دور رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں دشمن کہنے سے رقابت کااحساس اجاگر ہوتا ہے اور نفرت پیدا ہوتی ہے چنانچہ تنقید اور دشمنی کو گڈ مڈ کرکے تنقید کا راستہ روک لیا جاتا ہے۔
دشمن کے ساتھ ساتھ بعض افراد اپنے نقاد کو شیطان بھی بولتے ہیں چنانچہ سرکار حزب اختلاف کے رہنماء اور سیاسی رقیب کو شیطان اور ہمسایہ ملک کا ایجنٹ کے نام سے پکارتی ہے یا پھر کہا جاتا ہے کہ اسے شیطان نے ورغلایا ہے چنانچہ نقاد کو شیطان یا شیطا ن کا بھائی بولنے سے تنقید کی افادیت گھٹ جاتی ہے اور جھوٹ وسچ کامسئلہ بھی بیچ سے گول ہوجاتا ہے۔
قید،مارپیٹ،اذیت ،سخت سزا اور قتل تنقید سے بچاؤکا آخری حربہ ہوتا ہے۔
استاد کے ہاتھ میں ڈنڈا دیکھ کر شاگرد سوال کرنے سے گریز کرتا ہے شوہر کے ہاتھ میں چھڑی خاتون خانہ کے لب پر مہر لگا د یتی ہے،سپاہی کے ہاتھ میں بندوق سے شہری کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں اور تنقید بھول جاتا ہے۔
’’
چرتہ ڈب ھلتہ ادب‘‘
’’
جہاں مارپیٹ ہوتی ہے تو وہاں پر ادب و احترام بھی ہوتا ہے‘‘
پشتو کی اس متل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس میں ادب وآداب قائم رکھنے کے لئے مارپیٹ کو بھی جائز قرار دیا گیا تھا جاگیرداروں کے مسلح باڈی گارڈ اور عقوبت خانوں کی دہشت کاشتکاروں اور دیہی باشندوں کو خاموش رکھتی تھی جبکہ پیر،نجومی اور مذہبی پیشوااس مقصد کے حصول کے لئے معجزوں کا سہارا لیتے ہیں جب ایک پیر اپنی فکر کو صحیح ثابت کرنے کے لئے معجزے کا ذکرکرتا ہے تو وہ تقدس کا درجہ پالیتا ہے اور تنقید تو درکنار اس پر بات کرنا بھی گناہ بن جاتا ہے
قدیم اساطیری ادب اور دیوتاؤں اور دیویوں کی ہیبت ناک ہیت کذائی 
خوف ناک چہرے
خون آلودہ زبان
کئی ہاتھ اور ٹانگیں
آگ اگلتے اور لپکتے جہنم کا دہشت ناک تصور
توہمات ،جن بھوت اور خیالی بلائیں
عوام کو تنقید سے دور ر اورخوف میں مبتلا رکھنے کے لئے کافی تھیں
قدیم اساطیری ادب میں تنقید اور سوالات کرنے کو کتنا برا تصور کیا جاتا تھا اس کا اندازہ یہودیوں کے حوالے سے اس قصے سے بھی کیا جاسکتا ہے جس میں بچھڑے کے رنگ ،نسل اور ذات پر بحث چھڑ جاتی ہے اور صاحب کتاب اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اس تمام تگ و دو کا مقصد و منتہا عوام کو بندے ٹکے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کرنا تھا۔
جب ایک صاحب اختیار غریب اور کم زور سے زیادتی کرتا ہے اور وہ ملازم انصاف کا خواست گار اورحساب لینا چاہتا یا اس پر تنقید کرتا ہے اسے برا بھلا کہتا ہے تو اسے تسلی دی جاتی ہے کہ فکر مت کرو اسے اللہ پر چھوڑ دو یااس سے روز قیامت حساب کتاب وہی لے گا۔
تنقید ارباب اختیار اور ذمہ داران پر کی جاتی ہے تو عام شہری بھی اس کی زد میں رہتا ہے ایک حاکم عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتا ہے نمائندہ انتخابی وعدے ایفاء نہیں کرتا ہے سپاہی یا سرکاری افسر یا اہلکار تفویض کردہ فرائض دیانت داری سے انجام نہیں دیتا ہے۔
استاد غیر حاضر رہتا ہے
شوہر کماکر نہیں دیتا ہے
چوکیدار کی غفلت سے چوری اور خاکروب اجرت لینے تو وقت پر پہنچ جاتا ہے مگر شہر گندگی سے اٹا رہتا ہے تو تنقید کا دروازہ کھلتا ہے۔
مگر یہاں تو قدم قدم پر تنقید کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے ہیں
جرگہ میں سب اپنی آراء کا اظہار کرتے ہیں صاحب دولت و اختیار کھل کر بولتا ہے تو بڑا بوڑھا پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا اور نوجوان چپ چاپ سنتا رہتا ہے یہ تفاوت اس لئے رکھا گیا ہے کہ ایک بوڑھا جہاندیدہ، نتائج سے باخبر، سمجھوتے پر آمادہ،موقع شناس اور مصلحت پسند ہوتا ہے اس کی نسبت ایک نوجوان جسمانی لحاظ سے طاقت ور،گھمنڈی، نتائج سے بے خبر اور خطرات کے لئے کمر بستہ رہتا ہے وہ برے کو برا ہی کہتا ہے وہ اونچ نیچ کی زیادہ پروا نہیں کرتا ہے چنانچہ اسے پھاٹک دینے کے لئے ادب آداب کی آڑ لی جاتی ہے۔
بڑے او ر چھوٹے کی درجہ بندی سے بڑا تنقید سے مبرا ہوجاتا ہے تو سارا نزلہ چھوٹے،کم زور اور غریب ملازم پر آگرتا ہے چنانچہ اچھی بات تو بڑے اور دولت مند سے منسوب اور برائی غریب کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ہم برے ہیں۔
کام نہ کرنے والا مبرا اور کام کرنے والا گناہ گار اور قصور وار ٹھہرتا ہے کیونکہ محنت کے دوران ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی ہوتا ہے۔
ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہے حادثہ ہوجاتا ہے
گھریلو ملازم برتن مانجھ رہا ہے گر کر ٹوٹ جاتا ہے تو قابل مذمت ٹھہرتا ہے
جب ایک برادری یا سیاسی تنظیم میں اظہار رائے کی آزادی اور تنقید نہیں ہوتی ہے تنقید کرنے پر چپ کرایا جاتا ہے تو الزامات کے دور چلنے لگتے ہیں سازشوں کے لئے راہ ہموار ہوجاتی ہے گروہ بندیاں سر اٹھانے لگتی ہیں
علیحدگی کا سوچا جانا لگتا ہے۔
فرقہ واریت کی ایک بڑی وجہ اسی تنقید کا فقدان بھی ہے۔
بالاخر الگ جماعت کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے
ایک جاگیردار فقط معاشی طور پر ہی تکڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے علاقے اور شہر کے اعلیٰ افسران اور پولیس اہلکاروں سے راہ ورسم بھی ہوتے ہیں۔
ایک غریب کاشتکار جانتا ہے کہ اس کا مالک کس بات اور فعل پر خوش ہوتا ہے اور خوش ہونے پر انعام تو ناراضگی پر ذاتی عقوبت خانے میں بھی ڈال سکتا ہے جھوٹے مقدمے میں پھنسا سکتا ہے علاوہ ازیں اسے کسی بھی وقت پیسوں کی ضرورت پڑسکتی ہے لہٰذا وہ اپنے جاگیردار مالک، پولیس افسر،سرکاری ملازم اور جسمانی لحاظ سے طاقت ور سے پنگہ نہیں لیتا ہے بلکہ ان پر تنقید اور پس پشت برائی سے بھی گریز کرتا ہے۔
البتہ اپنے سے مالی اور جسمانی حوالے سے کم زور یا اپنے برابر پر تنقید کرسکتا ہے اور اسے برابھلا منہ پر بھی کہ سکتا ہے اور اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کے عیوب بیان کرنے پر کسی خطرے کا احساس نہیں جاگتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب طبقے کی چھوٹی چھوٹی کم زوریاں بھی بڑی بن جاتی ہیں اور صاحب حیثیت وجائیداد افراد کے بڑے بڑے گناہ بھی سامنے نہ آنے پر وہ پاک و صاف رہتا ہے چنانچہ ہم کہ سکتے ہیں۔
کہ جس معاشرے میں تنقید کا فقدان ہوتا ہے وہاں برے اچھے اور اچھے برے بن جاتے ہیں۔
وزیراعظم،وزراء اور بلدیاتی نمائندوں پر تنقید ہوگی اور وہ جواب دہ ہوں گے تو وہ ملک کی ترقی اور خو ش حالی پر دھیان دینے پر مجبور ہوں گے۔
افسروں اورا ہلکاروں
کے خلاف میڈیا پر بیانات اور اعتراضات آئیں گے تو بات بنے گی
چوکیدار اور خاکروب فرائض میں غفلت کے مرتکب نہیں ہوں گے تودکان کا مالک گہری نیند اور شہر کی صفائی ہوگی۔
تنقید اور جواب دہی سے افواہوں کی فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں
کھرا اور کھوٹاا لگ اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے
ایک مسئلہ پر بات چیت کے دور چلتے ہیں دلائل اور مخالف دلائل سے قائل کیا جاتا ہے تو حاضرین کی معلومات اور اس سے سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔
تضادات اور تنازعات بات چیت اور مذاکرات سے حل ہونے لگتے ہیں
برداشت اور تحمل کا مادہ پیدا ہوتا ہے تو انتہاپسندی پس پشت چلی جاتی ہے اورمارکٹائی اور قتل کی نوبت بھی نہیں آتی ہے۔
سوچنے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے
مسائل حل کرنے کے لئے عدالتوں سے رجوع نہیں کرنا پڑتا ہے
آزادی اظہار کے حق نے مغربی ممالک اور یورپی ریاستوں کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے ترقی اور خوش حالی کے ایک اہم عنصر کے طور پر قبول نہیں کیا گیا وہاں کی صورت حال کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔
اختلاف رائے اور تنقید کے باعث اہل اور کھرے افراد کو ایک ادارے میں آگے آکر اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے ملازمین کی محکمے میں دل چسپی بھی پیدا ہوجاتی ہے وہ خود میں اہلیت پیدا کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اگر یہ سب کچھ ملکی سطح پر ہو تو عوا م کی حکومتی اور ریاستی امور میں دل چسپی بڑھ جاتی ہے جس سے ملک میں ترقی کا عمل تیز تر ہوجاتا ہے۔

Comments are closed.