لیاقت علی
پچھلے دنوں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے مولانا طارق جمیل کو پنجاب یونیورسٹی میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ جس میں معمول سے زیادہ اساتذہ اور طالب علموں نے شرکت کی ۔ اس تقریب کے سٹار مقرر مولانا طارق جمیل تھے۔ کچھ دوستوں نے اس تقریب پر اظہار تاسٖف کیا ہے۔
ان کے نزدیک پنجاب یونیورسٹی جیسے ادارے میں ایسی تقریب کے انعقاد اور اس میں طلبا اور فیکلٹی کی بھرپور شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا سماج اور تعلیمی ادارے تاریخ کی مخالف سمت کس طرف تیزی سے محو سفر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کبھی بھی روشن خیالی اور لبرل فکر و عمل کا مرکز نہیں رہی ۔ گذشتہ کم از کم 45 سال سے پنجاب یونیورسٹی اسلامی جمعیت طلبہ کے قبضے میں ہے۔فیکلٹی کی اکثریت کا تنظیمی اگر نہیں تو فکری تعلق جماعت یا اس جیسی تنظیموں سے ضرور ہے۔
میرا تناظر اس حوالے سے تھوڑامختلف ہے۔میرے خیال میں مولانا طارق جمیل ہماری مذہبی فکر کے زوال کا نشان ہیں۔ مولانا طارق جمیل ہمارے عمومی فکری زوال کا عکس ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ہاں مولانا مودودی، مولانا امین اصلاحی اوران جیسے علمی اور فکری سطح کے بہت سے مذہبی عالم اور دانشور موجود تھے۔
یہ مذہبی دانشوروں کی وہ نسل تھی جس نے تقسیم ہند سے قبل جنم لیا تھا اور ایک ایسے معاشرے میں اپنے دانشورانہ سفر کی منازل طے کی تھیں جو فکری طور پرمتنوع تھا۔ ایک ایسا سماج جو مکالمے پر یقین رکھتا تھا۔ ایک ایسا سماج جس میں اختلاف کی بنیاد پر کسی کو کافر ٹھہرائے جانے کا خوف نہیں تھا اوراگر کسی نے ایسا کچھ لکھا بھی جو مین سٹریم مذہبی فکر سے متصادم ہوتا تو مذہب کے نام پر قتل ہونے کا قطعاکوئی امکان نہیں تھا۔
ان علما کی تحریروں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود ان کے زندگی میں بھی نہ صرف اختلاف ہوا بلکہ لوگوں نے فکری طور پران کی تردید و تنقیص بھی کی تھی۔ ان کی تحریریں آج بھی پڑھی جاتی ہیں اور انھیں پسند اور نا پسند کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔
مولانا طارق جمیل کی پٹاری میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے علم و دانش کہا جاسکے۔ انھوں نے اسلام پر کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی جسے تفہیم دین کے حوالے سے معیار ٹھہرایا جاسکے۔ وہ محض مقرر ہیں جو اپنی اداکاری، آنکھیں مٹکانے اور پنجابی مکس اردو بول کر اپنے سامعین کو متاثر کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں مذہب کا مطالعہ کرنے کا رحجان نہ ہونے کےبرابر ہے۔ ہم سنی سنائی باتوں اور حکایات کو مذہب مان کر سر ہلاتے رہتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل ہمارے نوجوانوں اور نیم پڑھے لکھے افراد کی ذہنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ وہ غیر مصدقہ روایات، فوک وزڈم پر مبنی قصے کہانیاں اور لطائف سنا کر اپنے سامعین کو مسحور کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب یہی ضرورت ڈاکٹر اسرار احمدپوری کیا کرتے تھے جنرل ضیا الحق کے دور استبداد میں ڈاکٹر اسرار احمد ٹی وی پر آکر عامتہ الناس کو دین کا ایک ایسا تصور ذہن نشین کرایا کرتے تھے جو آمریت سے مطابقت رکھتا تھا۔ پھر غلام مرتضے ملک آئے۔ انھیں مولانا طارق جمیل کا پیش رو کہا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں ہی تحریر کی بجائے تقریر کے دھنی ہے۔
غلام مرتضے ملک ٹی وی پرخطاب کا اہم حصہ ان کی ادارکارانہ صلاحیتیں ہوا کرتی تھیں، بالکل اسی طرح جس طرح آج کل مولانا طارق جمیل اپنے خطاب کے دوران اداکاری کرنا نہیں بھولتے۔
مولانا طارق جمیل کو مذہبی سیلیبریٹی بنانے اور انھیں مقبولیت دلانے میں ہمارے چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا طارق جمیل ٹی وی چینلز کی ڈیمانڈ جس میں اداکاری اور سطحی علمی حیثیت لازمی شرائط ہیں پر مکمل طور پر پورا اترتے ہیں۔ وہ مذہبی اور علمی شخصیت کی بجائے محض ایک برانڈ بن چکے ہیں۔
مولانا طارق جمیل شو بز شخصیات کی بھی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ وینا ملک، میرا،نور اور عامر خان تو ان کے مریدوں میں شامل ہیں اور مولانا ان کی کمپنی میں بہت خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں۔ مبینہ طور پرمولا نا پادریوں کی مانند اپنے چہیتوں کو اخروی زندگی میں جنت کی بشارت بھی دیتے ہیں۔
♦
2 Comments