بیرسٹر حمید باشانی خان
تشدد ظالمانہ ماضی کی باقیات ہے۔ ایک بھیانک یاد ہے۔ دنیا کے ہر عالمی ادارے اور قابل ذکر ملک نے بار بار اس بات سے اتفاق کیاہے کہ تشدد ایک بے جا، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھیار ہے۔ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی شکل میں با قاعدہ عالمی معاہدہ موجود ہے۔ اب تک ایک سو ساٹھ سے زائد ریاستیں اس کی فریق ہیں۔ کئی ممالک کے آئین اور قوانین میں تشدد کو غلط قرار دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی اس کے خلاف ہے۔ آج کا انسان ہر جگہ اور ہر ملک میں اس بھیانک ماضی اور اسکی پر تشددیادوں کو بھول جانا چاہتا ہے۔ تشدد جیسی بھیانک باقیات کو مٹانا دیناچاہتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں انسان اپنی ان کوششوں میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہا تھا۔ مگر بد قسمتی سے دنیا میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہونے کی وجہ سے یہ کوشش کمزور پڑ گئی۔ اور دنیا میں تشدد کے خلاف اٹھنے والی آوازیں کچھ مدھم ہو گئیں۔
نائن الیون سے پہلے لگتا تھا کہ دنیا عالمی فورمز پرتشدد کے خاتمے پر متفق چکی ہے۔ مگر اس واقعے کے بعد دنیا میں اس حوالے سے کئی مایوس کن واقعات ہوئے۔ ان واقعات سے لگتا ہے کہ تشدد کے خلاف پوری کامیابی کے لیے انسا ن کو ا بھی ا س سمت میں لمبا سفر اورکھٹن جہدوجہد کرنی ہے۔ دہشت گردی کے رد عمل میں امریکہ سمیت ترقی یافتہ دنیا کے کچھ ملکوں نے تشدد کو دوبارہ متعارف کروایا گیا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ ملک کے اندر قانونی کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں سرکاری تحویل میں تشدد کا حربہ تو اختیار نہیں کر سکتا تھا ۔ چنانچہ ا س نے اپنی سر حدوں سے باہر افغانستان، عر اق اور گوانتانا موبے جیسی جگہوں پر تشدد کا بے تحاشا استعمال کیا۔ گو کہ یہ عمل بڑی حد تک دہشت گردی اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں تک محدود رہا ہے۔
اگرچہ دہشت گردی کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے سوال پر امریکہ سمیت ترقی یافتہ دنیا کی سوچ میں بڑی تبدیلیاں آئیں، لیکن اس حد تک نہیں کہ ملک کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے شہریوں پر تشدد یا بدسلوکی کی اجازت مل سکے۔ بد قسمتی سے ترقی پزیر دنیا نے اس بدلتی ہوئی فضا اور سوچ کو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر مزید سخت پابندیوں کے لیے استعمال کیا۔ اورتشدد کا وہی پرانابھیانک رواج اپنی وحشیانہ شکل میں برقرار رکھا۔
پاکستان آج ان ممالک میں کی فہرست میں شامل ہے جہاں تشدد عام ہے۔ یہاں تشدد کا رواج سماج کی ہر پرت میں نمایاں ہے۔ تشدد کے مختلف مظاہر آئے روز دیکھائی دیتے ہیں۔ بعض گھروں میں بڑوں کے ہاتھوں چھوٹوں، مردوں کے ہاتھوں عورتوں، عورتوں کے ہاتھوںبچوں، یا پھر سکولوں میں استادوں کے ہاتھوں شاگردوں، مالکان کے ہاتھوں مزدوروں پر تشدد کے واقات سامنے آتے رہتے ہیں۔
یہ تشدد کے الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے واقعات آگے جاکر سماج کو بحیثیت مجموعی پر تشدد بناتے ہیں۔ سیاسی زندگی میں تشدد، دہشت گردی اور ریاستی تشدد اسی سلسلے کی الگ الگ شکلیں ہیں۔ اتنے پڑے پیمانے پر تشدد کی موجودگی اسکو ایک قابل قبول قدر کی حیثیت دیتی جارہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال پاکستان کے موجودہ قوانین ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو یہ جان کر افسوسناک حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں پولیس اور ریاستی تشدد کے خلاف کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں۔
تعزیرات پاکستان میں تشدد کے خلاف کوئی واضح دفعات نہیں ہیں۔ پاکستان کریمینل کوڈ بھی اس سلسلے میں خاموش ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کے پاکستان کے آئین میں تشدد کے خلاف کلاز موجودہے۔ اور پاکستان تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر چکا ہے۔ پاکستان نے اس کنونشن پر دستخظ اور اس کی توثیق تو دو ہزار آٹھ میں کر دی تھی، مگر اس سلسلے میں عملی اقدامات سے گریز کی پالیسی اختیار کی ، جو اب تک جاری ہے۔
کنونشن پر دستخط اور اس کی توثیق کے بعد یہ قومی اسمبلی کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملکی قوانین کو اس کنونشن کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے۔ مگر بد قسمتی سے ہماری قانون ساز اسمبلیوں میں جو کام سب سے کم اور بہت دیر سے ہوتا ہے، وہ قانون سازی ہے۔۔ اس گھمبیر صورت حال کا واضح عکس قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خصو صا پولیس کے طرز عمل میں نمایاں نظر آتا ہے۔
ملزموں سے اقرار جرم کرانے کے لیے پولیس تشدد کے واقعات عام ہیں۔ بلکہ عام طور پر پولیس تشدد کو ہی ملزم سے معلومات لینے کا واحد اورموثر زریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اقرار جرم کرانے کے لیے تشدد کا استعمال اور پھر عدالتوں کا اس اقرار جرم کو تسلیم کرنااس صورت حال کو مذید بھیانک بناتا ہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے متعدد اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ہر سال پاکستان میں ہزاروں لوگ پولیس تحویل میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ تشدد کے سینکڑوں ایسے واقعات بھی ہوتے جو منظر عام پر نہیں آتے اور اعداد و شمار کا حصہ نہیں بنتے۔ عام شہریوں کا پولیس کے ہاتھوں یوں تشدد کا نشانہ بننا ایک پریشان کن عمل ہے۔ بلا استشنا جب بھی کوئی عام شہری گرفتار ہوتا ہے اسے زہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ تفتیشی آفیسر تفتیش کے عالمی طور پر مسلمہ جدید طریقے استعمال کرنے کے بجائے تشدد کے روایتی رجعتی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ غیر انسانی تشدد کے زریعے ملزم کو اقرار جرم پرمجبور کیا جاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ کہ تشدد کے ایسے واقعات منظر عام پر آنے پر پولیس کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں ہوتی۔ انتہائی غیر معمولی صورت حال میں ، یا کسی ہائی پروفائل کیس میں زیادہ سے زیادہ تشدد کرنے والے پولیس آفیسر کا کسی دوسری جگہ تبادلہ کر دیاجاتا ہے ، جہاں وہ اپنی سابقہ روش برقرار رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تشدد پر قابو پانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کا انتہائی سنجیدہ نوٹس لیا جاتا ہے اور سخت رد عمل ہوتا ہے۔ تشدد کرنے والا پولیس آفیسر کسی صورت میں سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں کی عدالتیں پولیس کے سامنے دئیے گئے اقراری بیان کو اہمیت نہیں دیتی۔
اس طرح تشددکے ذریعے اقرا رجرم کی ریت تقریبا دم توڑ رہی ہے۔ تفتیشی آفیسر کو محنت سے ملزم کے خلاف ثبوت اور شہادتیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں۔ پاکستان میں پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اور مسلح اداروں پر بھی تشدد کے متعدد الزامات سامنے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے عقوبت خانوں کی موجودگی کی رپورٹیں دی ہیں۔ ان میں سے کئی عقوبت خانے ذاتی گھروں میں قائم ہیں ۔
یہ ساری صورت حال ایک ایسے سماج کی عکاس ہے ، جس میں تشدد ایک گہرے روگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس روگ سے چھٹکارا پانے کے لیے چند بنیادی نوعیت کے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ملزموں کے پولیس کے سامنے دئیے گئے اقبالی بیانات کو عدالتوں میں نا قابل قبول قرار دیا جائے۔ پاکستان یینل کوڈ اور کریمینل کوڈ میں ریاستی تشدد، پولیس تشدد اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے ہاتھوں تشدد کی واضح تعریف درج کی جائے اور اسکی کڑی سزا مقرر کی جائے۔
عام شہری کی طرف سے تشدد کی ہر شکایت کی مکمل تحقیق اور تفتیش کا میکانزم ترتیب دیاجائے۔ ا س کے لیے ایک آزاد و خودمختار ایجنسی یا ادارہ ہو ، جس کے پاس سرکاری اداروں کی تحویل میں تشدد یا بد سلوکی کی تحقیق و تفتیش کے مکمل اختیارات ہوں۔ اس سلسلے میں عوامی سطح پر تعلیم کی بھی اشد ضرورت ہے۔ پرائمری سے لیکر نصاب میں تشدد بطور نفرت انگیز اور نا پسندیدہ حربہ شامل کیا جائے۔ اور متعلقہ اداروں کو اس سلسلے مکمل تربیت دی جائے، ورنہ سماج دن بدن تشدد کی اس خوفناک دلدل میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔
♦