بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان میں سیاست دانوں کا تجربہ بڑا تلخ ہے۔ مگر اس تجربے سے انہوں نے سیکھا کچھ نہیں۔ اگر ذرا بھی سبق سیکھ لیا گیا ہوتا تو آج ہمارے چاروں طرف جو تماشا برپا ہے ، یہ نہ ہوتا۔ نہ کوئی ا یوان اقتدارے نکالے جانے کے شکوے ہوتے ، نہ منصفوں کو اپنے انصاف کی قسمیں اٹھانی پڑتیں۔ سیاست دان اقتدار کی جنگ میں ہمیشہ پوشیدہ قوتوں پر تکیہ کرتے رہے۔ اس خوش فہمی میں کہ فقط اقتدار ہی باعث طاقت و تکریم ہے۔
حالانکہ جو لولہ لنگڑا اقتدار ان کو عطا ہوتا رہا وہ محض باعث رسوائی ٹھہرا۔ مگر یہ شوق اقتدارتھا، یا پھر اقتدار سے باہر رہ جانے کا خوف جو انہیں اس روش پر چلنے پر مجبور کرتا رہا۔ بے نظیر کوبلاخر اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہوا ، اور انہوں نے اس شیطانی چکر سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ آگ و خون کا گہرا سمندر عبور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی۔ اپناپوار خاندان قربان کر دیا تھا۔ دو دفعہ اقتدار سے بے دخلی کی زلت وہ برداشت کر چکی تھیں۔
جلاوطنی میں انسان اپنے معروض سے باہر نکلتا ہے، تعصبات سے اوپرا ٹھ کر سوچتا ہے۔ ان کو طویل سوچ و بیچار کاموقع ملا۔ جلسے، جلوس اور نعروں کے ہیجان سے کچھ دیر دور رہ کر جب انہوں نے ٹھنڈے دل سے غور کیا تو واضح نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دیر نہ لگی۔ جمہوریت ، عوام کا حق حکمرانی اور سیاست کاروں کی سیاست میں اپنی بقا، یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ نواز شریف کا تجربہ تھوڑا مختلف ضرور تھامگر کم تلخ نہیں تھا۔
دونوں اپنی اپنی جگہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ سیاست دانوں کی اپنی لڑائی آمریت پسندوں کو حکمرانی کا موقع دیتی ہے۔ چنانچہ یہ لڑائی اگر مکمل طور پر بند نہیں ہو سکتی تو کم ازکم اس کی کچھ شرائط طے کرنا ، حدود مقرر کرنا ضروری ہے۔ اور یہ عہد کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت کے خلاف کسی تیسری قوت کی سازش کا حصہ نہیں بنا جائے گا۔ میثاق جمہوریت اسی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ جمہوریت کی طرف یہ ایک شاندار قدم تھا۔
مگر ان دیکھی قوتیں جو نصف صدی سے سیاست میں مورچہ زن تھیں، آسانی سے یہ مورچہ چھوڑنا کو تیار نہ تھیں۔ چنانچہ ان کا اثر و رسوخ جمہوریت کے بعد بھی مختلف اوقات میں نظر آتا رہا۔ سیاست دان ان غیر مرئی قوتوں کے نفسیاتی اثر اورخوف سے پوری طرح آزاد نہ ہو سکے ۔ مگر اقتدار منتقل ہو گیا۔ جمہوریت نے دس سال پورے کر لیے۔ اختیار کی لڑائی مگر ابھی جاری ہے۔ آمریت نئے روپ دھار کر سامنے آرہی ہے۔ نواز شریف اس کی زندہ اور جیتی جاگتی مثال ہیں۔
سیاست دان اگر تاریخ سے سبق سیکھ لیتے ، تو تاریخ اپنے آپ کو نہ دہراتی ۔ پاکستان بننے کے فورا بعد نوکر شاہی یہ طے کر لیا تھا کہ ملک چلانے کے لیے سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سوچ کا اظہار قائد اعظم کی زندگی میں ہی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ان کے کئی احکامات تھے جو نظرانداز کر لیے گئے۔ کئی بیانات تھے جو چھپا لیے گئے تھے، اور چھاپنے سے روک دئیے گئے تھے۔ سیاست دان اس صورت حال کو اگر بھانپ لیتے تو آغاز سفر میں ہی کچھ اصول طے کر لیے جاتے۔
مثلا یہ کہ طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں۔ حق حکمرانی صرف عوام کو حاصل ہے۔ اور عوام کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار صرف ان کے منتخب نمائندوں اور قانون ساز اداروں کو ہوگا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔ نوکر شاہی نے فیصلہ سازی کے جملہ اختیارات اپنے حق میں محفوظ کر لیے۔ خواجہ نظام الدین کی برطرفی اور پہلی قانون ساز اسمبلی کا خاتمہ اس کا واضح اظہار تھا۔ اس موقع پر پہلی دفعہ پاکستان میں عوام کے حق حکمرانی اور بالادستی کا تنازعہ کھڑا ہوا۔
عدالتیں اگر چاہتی تو اس تنازعے کا فیصلہ جمہور اور جمہوریت کے حق میں کر کہ ہمیشہ کے لیے یہ باب بند کر سکتی تھیں۔ مگر یہ فیصلہ نوکر شاہی کے حق میں ہو گیا اور جمہوریت کے مسلسل قتل کا ایک راستہ کھل گیا۔ سیاست دان اگر اس وقت اس صورت حال کا پورا ادراک کر لیتے اور مزاحمت پر اتر آتے تو یہ سلسلہ وہی پر ختم ہو جاتا۔ کسی قسم کی مزاحمت اور رد عمل کے کے خدشے سے پاک نوکر شاہی نے ایوب خان کی قیادت میں وہ کام کھل کر کرنے کا فیصلہ کیا ، جو اب تک تک کسی نہ کسی آڑ میں کیا جاتا تھا۔
ایوب خان نے منتخب اداروں کو نااہل قرار دینے کا حکم جاری کیا جو ایبڈو کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ پاکستان کی تا ریخ کا سب سے بدنام ترین حکم بن گیا۔ اس شاہی حکم کے تحت 75 سیاست دانوں کو سات سال کے لیے نا اہل قرار دیدیا گیا۔ اس سے پہلے ایوب خان نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ ، اور عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگا دی تھی۔
ایبڈو میں ایک آرٹیکل نمبر چھ تھا جس کے تحت چھ ہزار سیاسی کارکنوں کو نا اہل قرار دیا گیا۔ اتنی تعداد میں لوگوں کی سیاست سے بے دخلی کے بعد جوسیاست دان باقی بچے ان کے لیے ایبڈو کا آرٹیکل نمبر سات استعمال ہوا۔ اس آرٹیکل میں لکھا گیا کہ کوئی بھی شخص جسے کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہو وہ خود ہی سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر سکتا ہے ۔ اس صورت میں اس کے خلاف مزید کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے خلاف انکوائری کی جائے گی ، اور جرم ثابت ہونے پر سات سال کے لیے نا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس آرٹیکل کے تحت شیخ مجیب الرحمن، حسین شہید سہر وردی جیسے بڑے لیڈروں کو نا اہل قرا دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کو گرفتار کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ قائد اعظم کے قریبی ساتھی، مسلم لیگ کے چوٹی کے لیڈر اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہردوری کو جنوری1962 میں کراچی میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور غداری کا الزام تھا۔
سیکورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت ان کو ایک سال تک بغیر سماعت کے جیل میں رکھا جا سکتا تھا۔ اس گرفتاری کے خلاف حبس بیجا کی درخواست پر ایوب خان نے یہ آرڈر جاری کر دیا کہ عدالتوں کو حبس بیجا کی درخوستوں کی سماعت کا کوئی اختیارنہیں ہے۔ ایوب خان کے ان اعلانات اور اقدامات کو کسی عدالت نے نہ تو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا ۔ اور نہ ہی کسی نے بالادستی کا سوال اٹھایا۔ حالانکہ بالادستی کا سوال اٹھانے کا موقع وہی تھا۔
سیاست دانوں کی اہلی، نا اہلی، اور عوام کے حق حکمرانی کے سوال پر ایک بڑی قانونی جنگ بنتی تھی۔ یہ جنگ جن لوگوں نے لڑنے کی کوشش کی عدلتوں نے ان کو نظریہ ضرورت کی نظیر دکھا کر خاموش کردیا۔ اس طرح درجن بھر وزیر اعظم کریپشن یا نا اہلی کے زلت آمیز الزامات کے تحت بر طرف کر دئیے گئے جن میں خود نواز شریف صاحب بھی شامل رہے ہیں۔
اب کی بارجو نواز شریف صاحب کو اقامہ رکھنے یا اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے، یا ڈیکلیر نہ کرنے کے جرم میں اقتدار سے نکال دیا گیا ۔ یا ان کو اپنی ہی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے سے روک دیا گیا تو وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ نواز شریف صاحب اگر اس سوال کو تاریخی تناظر میں دیکھتے تو انہیں خود بخود اس سوال کا جواب مل جاتا۔ انہیں بار بار یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہ گوارا کرنی پڑتی۔
تاریخی تناظر میں اس سوال کو دیکھنے سے ہو سکتا ہے کہ وہ تاریخ سے خود بھی کوئی سبق سیکھیں اور دوسرے سیاست دانوں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیں کہ سیاست دانوں کی روش میں اب بھی کوئی بڑی تبدیلی دیکھائی نہیں دیتی اور آمریت مختلف شکلوں میں ان کے ارد گرد موجود ہے۔
♦
One Comment