یہ وارث اور محافظ کون ہے ؟

بیرسٹر حمید باشانی

ہم خطرناک دور میں رہتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد فکر و اندیشے بہت ہیں۔ میرے کچھ دوست اکثر جمہوریت کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اس بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں سنیٹر فرحت اللہ بابر کے خدشات کی طویل فہرست دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ یہ خدشات اور فکر مندی اس حقیقت کا اظہار ہے ، کہ ہمارے قانون ساز قانون بناتے بناتے بوڑھے ہو جاتے ہیں، ریٹائر ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ خود اپنے ہی خدشات دور کرنے کے لیے جو پہلا اور بنیادی قانون انہیں بنانا چاہیے، وہ نہیں بنا پاتے۔ نہیں بنا سکتے۔ اس پر مجھے مایوسی ہوئی۔ غصہ آیا۔ مگرسنیٹر نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ آج کل ہر کوئی اداروں کے بارے میں ہی بات کر رہاہے۔ ہر کوئی اداروں کے باہمی تصادم کے خدشات ظاہر کر رہا ہے۔ عوامی سطح پر بھی ایسا ہو رہاہے، سیاسی اور دانشور لوگ بھی اس گفتگو میں مصروف ہیں۔ 

سینیٹر فرحت اللہ بابرنے اداروں کے درمیان تصادم بارے جو کہا تھا، اس پر ایک بزرگ دانشور نے مجھے بتایا کہ یہ محض خدشات ہی ہیں۔ بے بنیاد خوف ہے۔ اداروں کے تصادم کی بات کرنے والوں میں کئی لوگ شامل ہیں۔ ایک وہ جو واقعی دیانت داری سے ایسا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی تشویش حقیقی ہے۔ اور وہ اس کے بر وقت تدارک کی بات کر رہے۔ دوسرے وہ ہیں، جو مصنوعی خوف پیدا کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے مفادات اداروں کے درمیان کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔

چنانچہ ان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ کشیدگی کی کوئی صورت پیدا ہو ، اور یہ کشیدگی کسی مداخلت کا باعث بنے۔ حالانکہ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے، تو پاکستان میں اداروں کے درمیان کبھی تصادم نہیں ہوا۔ یہ تصادم ہمیشہ افراد کے درمیان ہوتا رہا۔ کچھ افراد اپنی بے قابو خواہشات، طاقت واقتدار کے جنون میں یہ مہم جوئی کرتے رہے۔ اقتدار پرقبضے کا منصوبہ کبھی کوئی ادارہ بطور ادارہ نہیں بناتا۔ یہ چند لوگ ہوتے ہیں ، جو ایسے منصوبے بناتے ہیں۔

البتہ اقتدار پر قبضے کے بعد یہ چندلوگ پورے ادارے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو آئین کی بالادستی نہیں مانتے۔ اپنے آپ کو عقل کل، اور اپنی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو آئین سے بالا تصور کرتے ہیں۔ ماضی میں جتنی بھی مہم جوئی ہوئی، وہ ایسے ہی لوگوں نے کی۔ کسی آمر نے اگر آئین توڑا۔ یا اقتدار پر شبخون مارا تو اس نے اس کام میں چند ساتھیوں کو ہی اعتماد میں لیا۔ ادارے کو اعتماد میں نہیں لیا۔

کسی جج نے اگر آئین کی روح کے خلاف فیصلے کیے تو اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ ایک دو ساتھیوں کو ساتھ ملا لیا۔ کسی آمر کے اقدامات کی قانونی و آئینی گنجائش نکالی ، تو اس میں بھی چند لوگ ہی شامل تھے۔ گویا چند افراد نے اپنی خواہشات کی خاطر اداروں کو بد نام کیا۔ ان کا غلط استعمال کیا۔

بی۔ آر۔ امبیدکر کو عالمی سطح پر ایک قد آور جیورسٹ سمجھا جاتا ہے۔ ان کو ہندوستانی آئین کا باپ کہا جاتا ہے۔ بھارت کی پیچیدہ اور متنوع سماجی تشکیل کے باوجود اس نے لا جواب آئین بنایا، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آئین کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل کرنے والے غلط لوگ ہیں، تو وہ آئین براثابت ہو گا، اور آئین خواہ کتنا برا کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل کرنے والے اچھے لوگ ہیں، تو آئین اچھا ہی ہو گا۔

ہمارے ہاں تو آئین کے ساتھ یہی ہوتا رہا۔ ہمارامئسلہ افراد رہے ہیں، آئین نہیں۔ ادارے نہیں۔ اس پوری کہانی میں اصل شکار آئین ہے۔ نشانہ آئین بنتا رہا۔ آئین کے اس قتل میں کچھ آمر تھے، کچھ جج۔ ان لوگوں نے آئین کو وہ اہمیت نہیں دی جو لازم تھی۔ 1973کے آئین میں، آئین شکنی کو غداری قرار دیا گیا تھا۔ سنگین جرم بنایا گیا۔ سخت سزا مقرر کی گئی ۔ مگر یہ سخت کلازجنرل ضیا الحق کو اقتدار پر شب خون مارنے سے نہ روک سکی۔

کچھ جج اس وقت آئین کی پاسداری کر سکتے تھے۔ لاقانونیت کو مسترد کر سکتے تھے۔ ہمیشہ کے لیے ایک مثال بن سکتے تھے۔ مگر انہوں نے جنرل ضیاالحق کا حکم ماننے کو ترجیح دی۔ اور تابعداری میں ذولفقار علی بھٹو جیسے نابغہ روزگار شخص کو پھانسی کی سزا کا فیصلہ سنا دیا۔ ایک ایسا فیصلہ جس پر آنے والے جج حیرت و افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ اسے عدالتی قتل مانتے رہے۔ اس کے ذکر پر شرم محسوس کرتے رہے۔ آئین کے تحفظ میں یہ عدلیہ کی بطور ادارہ ناکامی نہیں تھی، یہ چند اشخاص کی ناکامی کی کہانی تھی۔ جو اپنا عہد نبھانے، اپنافرض پورا کرنے میں نا کام رہے۔

یہ کہانی ضیاالحق اور ذولفقار علی بھٹو پرکی ختم نہیں ہوئی۔ جنرل مشرف کے دور میں اس کو دو بار دہرایا گیا۔ اس دفعہ مگر اتنا ضرور ہوا کہ کچھ ججز نے نظریہ ضرورت کو غلط قرار دے دیا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں آئین کچھ آمروں کو اقتدار لینے سے، اور کچھ ججوں کو ان کی من مانی تشریح سے نہ روک سکا۔ اور شائد مستقبل میں نہ روک سکے، مگر ہمارے پاس آئین پر تکیہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ آخر کار یہ آئین ہی ہے، جو سب کو اپنا اپنا کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ سب سے انصاف کر سکتا ہے۔

لیکن آئین کو صرف ججوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، جیسا کہ ہم نے ماضی میں کیا۔ آئین کے اصل وارث اور محافظ عوام ہیں۔ اور اسے مسخ ہونے سے بچانے کے لیے عوام کا بیدار ہونا ضروری ہے۔ آگے آنا ضروری ہے۔ رابرٹ کینیڈی کا میں کوئی مداح نہیں، مگر اس کی کئی بہت دانشمندانہ باتیں ہیں۔

ایک دانشمندانہ قول یہ ہے کہ انصاف کی عظمت اور قانون کی شان صرف آئین ، ججوں، پولیس اور وکلا کی وجہ سے نہیں قائم ہوتی، بلکہ ان مردوں اور عورتوں کی وجہ سے ہوتی ہے ، جن پر یہ سماج مشتمل ہے، وہ قانون کے محافط ہیں، جیسے قانون ان کا محافظ ہے۔ میں کینیڈی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ کسی ملک میں آئین اور قانون کو درپیش بڑے بڑے سولات پر عوام خاموش اور لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ ایسا کرنے سے چند لوگ ان کی تقدیر کے مالک بن جاتے ہیں۔ چنانچہ عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی کی حکمرانی قائم کرنے میں سر گرم کردار اد کریں۔

عوام یہ کردار دو طریقوں سے ادا کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے نمائندوں کے انتخاب میں سرگرم حصہ لیں۔ اور صرف ایسے لوگوں کو ووٹ دیں ، جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہوں۔ علم اور تجربے کے اعتبار سے اس قابل ہوں ، کہ آئین و قانون سازی کے پیچیدہ عمل میں شامل ہو سکتے ہوں۔ آمریت پسند قوتوں اور مہم جو افراد کے عزائم پہچاننے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ انتخابی طریقہ ہے۔ اچھے لوگوں کا انتخاب، اچھے مستقبل کی نوید ہوسکتا ہے۔ مثبت تبدیلیوں کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ اچھی خبروں کا باعث ہو سکتا ہے۔ برے لوگوں کا انتخاب اس کے برعکس نتائج لا سکتا ہے۔ ماضی کے برے تجربات دہرانے پر مجبور کر سکتا ہے۔

عوام کے پاس دوسرا طریقہ سیاسی سرگرمی یعنی پو لیٹیکل ایکٹیو ازم ہے۔ عوام افراد اور اداروں پر  کڑی نظر رکھیں۔ اور اگر کوئی فرد واحد یا ادارہ مہم جوئی پر اتر آئے، آئین توڑنے کی کوشش کرے، تو عوام اپنی طاقت سے اسے روک سکتے ہیں۔ وہ اس سرگرمی کے زریعے آئین کے پاسبان بن سکتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی قائم کر سکتے ہیں۔

تاریخ میں عوام نے کئی بار یہ کردار دوسرے ملکوں ادامیں کیا ہے۔ جب عوام آمریت پسندوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ مگر ہم جس دور میں زندہ ہیں ، اس میں جمہوریت پر براہ راست حملہ نہیں ہوتا۔ یہ کام اب بلا واسطہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نئی تکنیک ہے ، جس میں ادارے جمہوریتوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ نئے دور میں جمہوریت کو نیا خطرہ درپیش ہے۔ یہ صرف عوام ہی ہیں، جو جمہوریت کو اس خطرے سے بچا سکتے ہیں۔

♦ 

 

Comments are closed.