ایمل خٹک
پشتون تحفظ موومنٹ کے واضح موقف کہ وہ ملک کے قانونی اور آئینی فریم ورک کے اندر پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہے کے باوجود فوج کے ماتحت بعض ادارے عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پی ٹی ایم فوج یا ریاست کے خلاف ہے ۔ تحریک کے خلاف گٹھیا اور بے سروپا الزامات کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے ۔ پاکستان کی سیاسی کلچر میں یہ الزامات کوئی انوکھی بات نہیں البتہ ماضی میں یہ الزامات اتنی تواتر ، بہونڈے اور بیجا طریقے سے لگائے گئے ہیں کہ ان کی اہمیت اور وقعت کم ہو گئی ہے اور ایک محدود حلقے کے علاوہ اب لوگ ان الزامات کو سنجیدہ نہیں لیتے الٹا اب اس کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حقوق مانگنے والا ہمیشہ غداری کا لقب پاتا ہے آج جتنے بھی حقیقی عوامی لیڈرز ہے وہ تقریباً سارے غدار ہیں ۔ میاں نواز شریف ، اسفندیار ولی ، محمود خان اچکزئی ، الطاف حسین ، عطاء اللہ مینگل وغیرہ سب غدار ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پشتون ، بلوچ اور سندھی قیادت کی نسبت پنجاب اور مہاجروں کی قیادت محب وطن تھی مگر اسٹبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی جمہوریت اور عوام دشمنی اور عوامی حقوق اور بیداری کےحوالے سے ان کا برداشت اور حوصلہ کم ہو رہا ہے اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ روایتی طور پر اسٹبلشمنٹ نواز اور محب وطن کہلائے جانے والا پنجاب کا عوامی اور نمائندہ لیڈر میاں محمد نواز شریف اور مہاجروں کا محبوب راہنما الطاف حسین اب بڑے غدار ہیں ۔
اب تحریک یا مقصد کی سچائی ناپنے کا یہ پیمانہ بن گیا ہے کہ ریاستی ادارے جس شخصیت اور تحریک کی زیادہ مخالفت کرتے ہیں تو اتنے زیادہ لوگ اس کو سچا اور راہ حق پر سمجھتے ہیں ۔ تنگ نظر مفادات ، محدود وژن کی حامل اور خود فریبی میں مبتلا اسٹبلشمنٹ کا ذہن ماوف ہوچکا ہے اور یہ حقیقت نہیں جان سکتی کہ وہ دور گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔
اب پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے ۔ اب ان کی حالات کو قابو میں کرنے اور مینی پولیشن کی صلاحیت کمزور ہور رہی ہے ۔ معلومات کی فراھمی اور رسائی پر ریاستی کنٹرول نہ ہونے کے برابر اور اس تک عوام کی رسائی آسان اور تیز تر ہوگئی ہے۔
ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ اور فرسٹریشن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تصور کہ کچھ ادارے اور شخصیات تنقید سے مبرا یا مقدس گائے ہیں ختم ہوگیا ہے اور اب یہ تصور عام ہو رہا ہے کہ جو بھی سرکاری اہلکار قانون شکنی کرے گا چاہے وہ وردی پوش ہے یا بغیر وردی کے وہ قانون کے سامنے برابر اور قابل قانونی گرفت ہے ۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں یہ اور بات ہے کہ ریاستی ادارے قانون سے بالاتر ہونے کی سوچ چھوڑنے کے لیے بھی تیار بھی نہیں اور بزور یا چالاکی بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ راو انوار اور مشرف کے کیسوں میں ہم نے دیکھا کہ ریاستی ادارے اپنے بندوں کو بچانے کیلئے کیا کیا ڈرامے کرتے ہیں ۔
عوام یہ بے تُکی منطق سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب عوام اپنے اوپر روا ہونے والے ظلم ، زیادتیوں اور بے انصافی کے خلاف آواز آٹھاتے ہیں تو ریاستی اداروں کو تحفظ پاکستان کیوں یاد آجاتا ہے ۔ حق مانگنے سے ملک کی سالمیت خطرات سے کیسے دوچار ہوجاتی ہے ۔ غداری کے ٹھپے کیوں عام ہوجاتے ہیں ۔ ظلم کے خلاف یا بنیادی حقوق کیلئے آواز بیرونی ایجنڈا یا ملک دشمنی کیسے بن جاتی ہے ۔ آیا یہ انگریز نوآبادیاتی دور سے ورثے میں ملی غلامانہ ذہنیت کا اثر ہے جہا ں ہر آزادی کی آواز کو غداری کے مترادف سمجھا جاتا تھا یا کچھ اداروں کی تنگ نظر ادارہ جاتی مفاد کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ جو بھی ہے اس سے عوام میں ریاست سے دوری اور بیگانگی بڑھ رہی ہے ۔ اور عوام کی سینس آف اونرشپ کمزور ہو رہی ہے ۔
ریاستی دباوُ کے تحت پاکستان کی مین سٹریم میڈیا نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں کا بلیک آوٹ کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود ملک کے اندر اور باھر لاکھوں افراد نے پی ٹی ایم کے جلسوں اور ریلیوں کو یا تو لائیو دکھایا یا اس کی ریکارڈنگ ۔ پی ٹی ایم کی مقبولیت اب بڑھ رہی ہے ۔ محسود تحفظ موومنٹ سے شروع کیاگیا سفر اب روکنے والا نہیں۔
ملک کے دیگر مظلوم طبقات بھی پی ٹی ایم کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اب پنجاب میں وہاں کے مظلوم عوام کو آواز ملے گی اور سندھ میں سندھی اور مہاجر مظلوم عوام کی مشکلات اور مسائل پر بات ہوگی ۔ غرض پی ٹی ایم اب مظلوم عوام کی تحریک بن رہی ہے کیونکہ پی ٹی ایم کے مطالبات مثلا ً ماورائے عدالت قتل عام اور جبری گمشدگی کے مسئلے سے بلوچ ، سندھی اور مہاجر بھی دوچار ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ناروا سلوک کے حوالے سے ان کی شکایات بھی ہیں ۔
پی ٹی ایم کے زیادہ تر سرکردہ افراد پشتون بیلٹ میں جاری شورش کے برائے راست متاثرین میں سے ہے اور انہوں نےپہلے طالبان اور بعد میں فوجی آپریشنوں کے دوران زیادتیاں اور ناروا سلوک دیکھا اور سہا ہے اور تباہی و بربادی قریب سے دیکھی ہے۔ پشتونوں کا اجتماعی شعور زخمی اور دردناک کرب میں مبتلا ہے ۔ پی ٹی ایم اس دکھ اور درد کو زبان دے رہا ہے۔ اگر وہ بعض ادارواں کی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی اور ان کی مضر اثرات بیان کرتے ہیں اور دیگر شہریوں کی طرح مساویانہ سلوک اور بے انصافی اور ذیادتیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
اس طرح ان نوجوانوں کے رویے میں جوش اور جذباتی پن کی وجہ بھی یہی حقیقت ہے کہ تحریک کے سرکردہ افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ گزشتہ چند سالوں میں شورش زدہ علاقوں میں ہونے والی زیادتیوں اور بے انصافیوں کے شاھد ہیں ۔ شورش زدہ علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ملک کے شہریوں سے دشمن ملک کے شہریوں جیسا سلوک اور رویہ اب اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ اب ڈر اور خوف ختم ہورہا ہے اور لوگوں کو حوصلہ اور زبان مل رہی ہے ۔ قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ میں آپریشنوں کے دوران جو تباہی بربادی ہوئی ہے اس کے سامنے کشمیر میں مظالم کچھ نہیں ہے۔
پالیسی سازی کے عمل سے عوامی سیاسی ، مذ ہبی اور سماجی حلقوں کی بڑھتی ہوئی بیدخلی اور پالیسیوں کی تنگ نظر اور محدود مفادات کی ترجمانی اور تحفظ کی وجہ سے وسیع عوامی حلقوں میں ان پالیسیوں کی احساس ملکیت کم اور اس سے لاتعلقی بڑھ رہی ہے ۔ اس طرح داخلی اور خارجہ پالیسیاں تنگ نظر ادارہ جاتی مفادات کی تابع ہونے اور اس کی محدود مشاورتی بنیاد کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کی عوامی حمایت یعنی سپورٹ بیس بہت سکڑتی جارہی ہے۔
اب ماضی کی طرح سیاسی اور مذ ہبی پارٹیاں ان کی جائز اور ناجا ئز کاموں میں فریق بننے یا حمایت کیلئے کندھا دینے کیلئے تیار نہیں اس وجہ سے اب اسٹبلشمنٹ بیرونی دباؤ کو کاؤنٹر کرنے یا داخلی پالیسیوں کیلئے سازگار ماحول مہیا کرنے یا میاں نوازشریف ، الطاف حسین اور اب منظور پشتین جیسے غداروں کے خلاف غیرمعروف افراد اور گڈ طالبان یا عسکری تنظیموں کو استعمال کرتی ہے ۔
عسکری ذہن کو وار سائنس کا ایک اہم اصول سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ اچھا سپہ سالار ایک وقت میں ایک محاذ کھولتا ہے اور زیادہ محاذوں کو کھولنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ اسٹبلشمنٹ نے کئی محاذ کھولے ہیں ۔ دوسری بات سیکورٹی کے بدلتے ہوئے تصورات ہیں۔ اب دنیا میں روایتی تصور کی بجائے ھیومن سیکورٹی کا تصور بھی کافی اھمیت اختیار کرگیا ہے۔
ہیومن سیکورٹی کا تصور شہریوں کی آزادیوں کو یقینی بنانا اور تحفظ ہے۔ ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری ، تعلیم ، صحت ، روزگار اور زندگی کی دیگر آسائشات وغیرہ تک ان کی رسائی اور اس کی فراہمی اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ اگر شہری خوشحال اور مطمن نہ ہو تو ملک کادفاع مضبوط نہیں ہوسکتا ۔ اگر معاشی خود کفالت نہیں تو کبھی اقتدار امریکہ تو کبھی عرب ممالک اور کبھی چین کے پاس گروی رکھنا پڑے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ تمام مظلوم طبقات چاہے لسانی یا مذھبی اقلیتیں ہوں یا سماجی گروپ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف پارلیمان ، آئین اور قانون کی بالادستی اور بنیادی انسانی حقوق کے کم سے کم ایجنڈے پر متفق ہوجائے ۔ اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر نیا میثاق جمہوریت کرے۔ ورنہ اسٹبلشمنٹ اس طرح سیاسی قوتوں کو آپس میں تقسیم کرکے کھلم کھلا یا درپردہ رہ کر حکمرانی کرئیگی اور سیاسی تقسیم اور مظلوم پستے رہیں گے۔
♦
Pingback: پشتون تحفظ موومنٹ اور غداری کارڈ – MQM United Kingdom