اردو کے مشہور شاعر میر تقی میرؔ اپنے زمانہ کے ایک بیحد دکھی مگر ترقی پسندانسان تھے۔اپنی زندگی میں کئی باردلی کو لٹتے دیکھا۔مسلمان حملہ آوروں نے ایک حملہ میں تو ان کے گھرکو بھی مسمارکرکے چٹیل زمین بنادیا تھا۔لٹ پٹ کرآپ کبھی کسی مسلمان مہاراجہ کے ہندووزیر تو کبھی ہندوراجہ کے مسلمان وزیر کے زیرباراحسان ہو کرجان بچاتے۔زندگی کے ان سبق آموزنشیب وفراز(فراز محض محاورتاً لکھاہے،حقیقت میں تو نشیب ہی نشیب تھے)میں سے بار بارگزرکر انہیں احساس اور ادراک ہوا کہ اصل مذہب توانسانیت ہے اور انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی منافقتوں اور مذہب کے نام پہ گردنوں کو کٹتے دیکھا تو میر صاحب مذہب سے ہی بیزار ہو گئے۔انسان کو ماردیناتو انتہائی آسان ہے لیکن انسان کا پھر سے ہاتھ آنامشکل نہیں ناممکن ہے :۔
مشکل بہت ہے ہم ساپھرکوئی ہاتھ آنا۔۔یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا
لیکن افسوس کہ ہر دور میں ایسے خودساختہ خدائی فوجدارضرورموجود ہوتے ہیں جن کے لئے انسانی جان کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ان خدائی فوجداروں کے لئے نہ صرف کسی کو جان سے مار دینا آسان ہوتا ہے بلکہ مذہب یاعقیدہ و نظریہ کی بنیاد پرکسی کا جینا حرام کردینا اس سے بھی کہیں زیادہ تسکین قلب اور طمانیت کا باعث بنتا ہے جس کے حصول کے لئے وہ رات دن نت نئے طریقے ایجاد کرنے کی سوچتے رہتے ہیں۔
برصغیرپاک وہند میں تو اس قسم کے خود رو اور خودساختہ خدائی فوجداروں کی کوئی کمی نہیں،جو نہ صرف مذہب کے ٹھیکیدار بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لوگوں کے دلوں کا حال جاننے کے بھی دعویدار بن کر دندناتے پھرتے ہیں۔حال ہی میں اسلامی جمہوریہ کے ایک قاضی القضاۃ کو یہ جوش چڑھاہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس ملک میں نوکری کرنے والوں کی مذہبی بنیادوں پر لسٹیں تیار کی جائیں اور دیکھا جائے کہ ان میں سے کتنوں نے دوران سروس یا بعد ازریٹائرمنٹ اپنا ایمان ، عقیدہ یا مذہب بدلا،اور پھر یہ کہ کتنی بار بدلا۔ پتہ نہیں اس سروے یا ان لسٹوں کے بعد انہوں نے ایسے افراد کا کرنا کیا ہے؟۔
قرآن کریم میں تو ایسے افراد کا بھی ذکر ہے جو پہلے کافر تھے،پھر ایمان لے آئے پھر کافر ہو گئے،اور اس کے بعد پھر ایمان لے آئے،اور اس کے بعدنہ صرف پھر کافر ہوئے بلکہ کفر میں مزید بڑھ گئے (سورہ النساء ،آیت 137 )لیکن ان کے بارہ میں کوئی لسٹیں تیار کرنے یادنیامیں ان کا تیا پانچہ کرنے کا کوئی ٹھیکہ کسی کو نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ انکے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہوا ہے(تمہارے کسی فرمان یافیصلہ کی ضرورت نہیں)۔
لسٹیں تیار کرنے کے گورکھ دھندے میں پڑ گئے تواس کاا طلاق ذرا اس زمانہ پہ کرکے دیکھیں جب پیغمبر اسلام کی پیشگوئی کے مطابق ’’آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا اور شام کو کافراور شام کو مومن ہوگا تو صبح کوکافر‘‘۔(سنن ابوداؤد ۔کتاب الفتن والملاحم) ۔سچ پوچھیں تویہ زمانہ آج کا ہی معلوم ہوتا ہے!، تو جناب قاضی صاحب موصوف سارا دن بوکھلائے پاگل کی طرح ان سینکڑوں ،ہزاروں یا لاکھوں ’’مرتدوں‘‘ کی لسٹیں تیار کروانے اور انہیں پڑھنے سے فارغ بھی نہیں ہوئے ہونگے جو علی الصبح کافر ہو گئے تھے کہ رات کو کافر بن جانے والے سینکڑوں،ہزاروں لاکھوں سابق مومنوں یا مرتدوں کے نئی لسٹیں تیار کرنے کا نیا مرحلہ سرپہ آن کھڑا ہوچکاہوگا!۔
اور پھر ایسے میں مذہب کے خانہ والے شناختی کارڈ بنانے والے ادارہ ’نادرا‘ میں کام کرنے والوں کی حالت زارکا بھی اندازہ کیجئے جو ان خدائی فوجدار جج صاحب کے حکم پر ان کے ساتھ صبح شام لسٹیں تیار کرکر کے اور اس کے مطابق شناختی کارڈوں کو ان افراد کے ہر صبح اور ہر شام کو بدل جانے والے کفرواسلام کے مطابق باربار تصحیح شدہ قومی شناختی کارڈ جاری اور پھر کینسل کرکرکے خود بھی پاگل بن چکے ہونگے۔
واضح رہے کہ پیغمبر اسلام نے صرف اس قسم کے زمانہ اور اس میں موجود کمزورایمان والوں کاتذکرہ ہی کیا ہے ،کسی کو یہ ٹھیکہ یا اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے حالت ایمان سے حالت کفر میں آجانے پر کوئی تادیبی کارروائی کرنا یا لسٹیں بنانایا فتوئے دیناشروع کردے۔نہ کسی نام نہاد ’’ڈیکلریشن‘‘ پہ دستخط لینے کا حکم دیا،بلکہ اس کے بالکل برعکس نہایت واضح الفاظ میں ہدایت جاری فرمائی۔
چنانچہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کہ( ایسی صورتحال میں) آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟۔تو آپ ؐنے فرمایا کہ ’’ اپنی کمانیں توڑ لینا اور کمان کی تانت کاٹ دینا اور اپنی تلواریں پتھروں پہ مار(کر توڑ )دینا۔پس اگر کسی شخص کو تمہارے پاس بھیجا جائے تو پھر ابن آدم کے اچھے بیٹے کی طرح ہونا(یعنی ہاتھ نہ اٹھانا)‘‘۔
مگر اس واضح فرمان نبوی ؐکے بالکل برعکس ہمارے محترم جج صاحب موصوف حالت ایمان سے حالت کفراور حالت کفر سے حالت ایمان میں جانے والوں کی لسٹیں تیار کروانے ،اور ان پر روزگارمعاش کے دروازے بندکرنے یا کھولنے کا اعلان جاری کرتے ہوئے ،گویا خود کو رازق اور مالک،یا غالباً اپنے تئیں خود کوجنت اور دوزخ کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے،بڑے فخروتکبر وانبساط سے ابن آدم کے اچھے نہیں بلکہ برے بیٹے کی طرح اپنی قلم کمانیں سونتے اور قانونی تلواریں تیز کرنے پہ تلے نظرآرہے ہیں۔
مذکورہ حدیث کے الفاظ میں’’ ابن آدم ‘‘کی ترکیب استعمال کرنے میں یہ بھی پرحکمت اشارہ ہے کہ تم سب ابن آدم ہو،اپنی اوردوسروں کی یہ بنیادی اوقات اور مقام یاد رکھو اور پھر ابن آدم کے اچھے بیٹے بن کر دکھاؤ جو کسی کا جسمانی ،اخلاقی،تہذیبی،معاشرتی اور معاشی قتل نہیں کرتا بلکہ آدمیت کے مقام کو پہچان کر اس کی عزت و توقیربحال کرتا ہے۔
حضرت میرؔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
مت سہل ہمیں جانو،پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ایمانیات،دین اور مذہب کو تماشہ بنانے والے ان جیسے عقل کے ماروں کو ہی مخاطب کرتے ہوئے میر تقی میرؔ نے مذہب کو ہر شخص کا انفرادی اور ذاتی معاملہ قرار دیا اور اسے زیربحث لانے سے اجتناب برتنے کی تلقین کی:۔
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیاراور۔۔میں اور ،یاراور، میراکاروبار اور
ویسے بھی اگر ایک شخص ابھی جستجو کر رہا ہو ،اور حقیقی منزل تک پہنچنے سے پہلے وہ کبھی دیر اور کبھی مسجد میں نظر آئے تو فٹ سے اس پر کوئی فتویٰ لگانے سے پہلے اس کی اپنی زبانی اس کی بات تو سن لے:۔
کبھو تو دیر میں ہوں میں، کبھی ہوں کعبہ میں۔۔کہاں کہاں لئے پھرتا ہے شوق اس در کا
آپ نے دیرو حرم کے حوالے سے مذہب کی تاریخ واصل سے آگاہی حاصل کی،اور اپنے ازلی وابدی’’یار‘‘کوہرجا موجود پایا تو بے اختیار پکاراٹھے کہ:۔
اس کے فروغِ حسن سے چمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو ،یا کہ دیا سومنات کا
میرؔ صاحب نے فرمایا کہ کفر اور اسلام کے جھگڑوں میں پڑ گئے تو دنیالاشوں کاڈھیر ہی بن کر رہ جائے گی:۔
مسلم وکافر کے جھگڑے میں جنگ وجدل سے رہائی نہیں
لوتھوں پہ لوتھیں گرتی رہیں گی کٹتے رہیں گے سرکے سر
میر ؔ کے نزدیک اہم ترین اور بنیادی چیزآدمیت ہے،ایسی مذہبیت اور عبادت جو آدمی کو جانور سے ممیزوممتاز نہ کرپائے،کسی کام کی نہیں۔اپنے ’’شیخ جی‘‘ کو ہی دیکھ لیں:۔
حج سے کوئی آدمی ہو تو سارا عالم حج ہی کرے
مکے سے آئے شیخ جی لیکن وے تو وہی ہیں خرکے خر
ایسا ’’گدھا‘‘ جہاں سے مرضی ہو آئے،وہی خر کا خر ہی رہتا ہے:۔
مکہ گیا، مدینہ گیا ،کربلا گیا۔۔جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھرکے آگیا !۔
اگر کسی حاجی نمازی کو اپنے جیسے گوشت پوست کے دوسرے انسانوں کی عزت و توقیر کرنا نہیں آتی اورچہرے پہ مصنوعی مذہبیت طاری کرکے ایک جھوٹے تکبر سے چھٹکارانہیں پاسکا تو کیا حاصل؟۔
فائدہ کیا نمازِمسجد کا۔۔قدہی محراب ساجوخم نہ ہوا
غالباًاسی دوعملی اور منافق طبع خدائی فوجداروں سے بیزارہوکر میرؔ نے ببانگ دہل اعلان کر ڈالا کہ:۔
میرؔ کے دین و مذہب کا کیا پوچھتے ہو، ان نے تو
قشقہ کھینچا ،دیر میں بیٹھا ،کب کاترک اسلام کیا
اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ:۔
آکے مسافرمیرؔ عرب میں اور عجم میں کہتے ہیں
اب شہروں میں ہندوستاں کے کافرمیرؔ کہاؤں گا
میرؔ کو معلوم تھا کہ ترکِ اسلام کے بعدہر طرف ’ ’کافر میرؔ ‘‘ کے چرچے اور ان پر بحثیں شروع ہو جائیں گی،مذہب کے ٹھیکیداروں اور خدائی فوجداروں کے کیمپوں میں خوب مجلسیں جمیں گی ،فتووں کا بازارگرم ہو گا، اورہر طرف رونق ہی رونق ہو جائے گی۔یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ میر صاحب کے زمانہ سے لے کر اب تک عالم اسلام کی رونقیں کسی دینی یا دنیاوی ترقی نہیں بلکہ تکفیری کارروائیوں سے ہی قائم دِکھتی چلی آرہی ہیں،جس کی طرف نڈر اور حقیقت پسند میرؔ صاحب کیا دھڑلے سے فرماتے ہیں کہ :۔
کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لئے !
لیکن کیا یہ المیہ نہیں کہ’’ شریفِ مکہ ‘‘اس قسم کی ’’رونقِ اسلام‘‘ سے بیزار ہوکر شراب خانے کا گدابن جائے؟۔یہ گناہ کس کے سر ہوگا؟۔
شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ
یہ میرؔ اب جو گدا ہے شراب خانے کا
حمد،نعت اورمنقبت لکھنے والے میرؔ صاحب کا ترکِ اسلام ،جنہیں شمع حرم اورسومنات کے دیئے میں ایک ہی ذات کا نور جھلکتا نظرآتا تھا، ترکِ مولوی و قاضی برانڈ اسلام تھا یاکچھ اور، اپنے عہد کے سب سے بیدار مغز،روشن خیال اور ترقی پسند’’بلاگر‘‘ کی حیثیت سے اپنے ترک اسلام کا اعلان کرکے انہوں نے برصغیر کے عوام وخواص کو جو پیغام آج سے کوئی دو سو سال قبل دیا وہ یہی تھا کہ تحقیق و جستجو، ترکِ مذہب، یا تبدیلئ مذہب ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔شعور اور ارتقا کی منازل کبھی طے نہیں ہوتیں،اس لئے تبدیلئ مذہب یا تبدیلئ عقیدہ پرفٹ سے کوئی فتویٰ قتل داغ دینا، یا اس بناپہ کسی کامعاشرتی و معاشی استحصال کرنا،دھونس جمانا،ہاتھ اٹھاناابن آدم کے اچھے بیٹوں کو زیب نہیں دیتا۔
میرؔ صاحب کو معلوم تھا کہ’’ رب دلاں وچ رہیندا‘‘، کوئی خدائی فوجدار یا خودساختہ اسلام کا ٹھیکیداراختلاف اعتقاد کی بنیاد پرکسی کا دل توڑ کر اس کے ٹکڑوں سے اپنا کوئی کعبہ تعمیر کر بھی لے تو کیا؟۔
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایاتو کیا ہوا
قارئین کرام ،اقوام متحدہ کے منظور کردہ حقوقِ انسانی کے عالمی چارٹر (جس کا پاکستان بھی ایک دستخطی ہے) کا آرٹیکل18 دنیا کے ہر انسان کوبنیادی طور پر حاصل تبدیلئی مذہب کے حق کی توثیق مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے:۔
Everyone has the right to freedom of thought, conscience and religion; this right includes freedom to change his religion or belief, and freedom, either alone or in community with others and in public or private, to manifest his religion or belief in teaching, practice, worship and observance.
آج میرؔ صاحب حیات ہوتے تو انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے اس آرٹیکل کو پڑھ کر ان کی تسلی ہوجاتی کہ جدید دور کی جدید دنیا نے نہ تو انہیں بھلایا ہے اور نہ ان کی باتوں کو۔اقوام عالم کی مہذب دنیا ان کی باتوں کو نہ صرف غور سے سنتی اوران پر دیر تلک سردھنتی ہے بلکہ انہیں اپناتی بھی ہے۔بالکل درست فرمایاتھاآپ نے اپنے بے لاگ ’’بلاگ‘‘ میں کہ:۔
باتیں ہماری یاد رہیں ،پھرباتیں نہ ایسی سنیے گا۔۔۔پڑھتے کسو کو سنیے گا ،تو دیرتلک سر دُھنیے گا
سعی وتلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی۔۔صحبت میں علماء فضلاء کی جاکر پڑھیے،گنیے گا
♦
One Comment