کوی شنکر
وہ اماوس کی ایک رات تھی جب میں نے خالی بوتل سمندر میں پھینکی تھی اور اپنی محرومیوں پر قسمت کو بھرا بھلا کہنے لگا۔ رات کے سناٹے میں سمندر کی لہریں شورمچا کر میری سوچ پر تانڈو ناچ کر رہی تھیں۔ میری آواز پر جب لہریں حاوی ہونے لگیں تو میں نے تنگ آکر اپنی پیٹھ سمندر کی طرف کردی۔
میں اپنی بے بسی کے خیالوں میں گم ہی تھا کہ مجھے سمندرمیں طغیانی محسوس ہوئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو اندھیرے کے باوجود مجھے سمندر میں ایک بڑی لہر اٹھتی دکھائی دی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ ۔ میرا سارا خمار اڑن چھو ہوگیا۔ ایسی صورتحال میں مجھے اپنی جان بچانے کی پڑی۔ میں سمندر سے دور بھاگنے لگا لیکن میرے قدموں نے میرا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ مڑ کر دیکھا تو آسمان سے باتیں کرتی لہر میرے اوپر آگئی تھی۔ مجھے اب یقین ہو چلا تھا کہ آج کی رات میری زندگی کی آخری رات ہے اور میں صبح نہیں دیکھوں گا۔ میرے قدم ساحل کی گیلی ریت میں جیسے دھنس سےگئے ۔
موت کو سامنے دیکھ کر میں نے اپنی آنکھیں موند لیں اور دیوی دیوتاؤں کو پکارنے لگا۔ ابھی کچھ پل ہی گذرے تھے کہ سمندر کا شور ختم ہو گیا اور لہر ختم ہوگئی۔ ۔ ۔ ۔میں ہولے سے آنکھیں کھول کر سمندر کو تکنے لگا۔ سمندر کی طغیانی ختم چکی تھی اور میں خود کو زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اچانک ایک گرجدار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔۔’ کس نے مجھے نیند سے جگایا ہے۔ ۔ ۔؟؟؟‘ کچھ دیر پہلے جو میرے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی وہ آواز کے ساتھ گم ہو گئی اور میں اندھیرے میں اس شخص کو ڈھونڈنے لگا۔
میں ابھی اسی شخص کی تلاش میں تھا کہ مجھے پھر وہی آواز سنائی دی ‘ اوپر دیکھو آسمان کی طرف۔ ۔ ۔’ اوپر دیکھا تو آسمان سے باتیں کرتا ایک بزرگ کھڑا تھا۔ جس کی سفید داڑہی پانی کو چھو رہی تھی اور وہ ایک ہاتھ سے اپنا سر کھجا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے پسینے چھوٹ گئے، میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ‘ آپ ک ک کون ہیں۔ ۔ ۔ ’ ’ میں ورون دیوتا ہوں۔ ۔ ۔ ’ اس نے جواب دیا۔ ۔ ۔ میں نے کہا ’ سمندر کا دیوتا ورون ۔ ۔ ۔ ۔ آآآ آپ یہاں ۔ ۔ ۔ ۔ک ک کیسے۔ ۔ ۔ ۔؟’ میں اپنا جملہ مکمل نہیں کرسکا۔ ‘۔
’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں یہاں سویا ہوا تھا تم نے مجھے جگا دیا ہے۔ ۔ ۔!‘ اس نے کہا۔ ‘۔ ’میں نے جگایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟‘ میری بات سن کردیوتا بولا ۔ ۔ ۔’ ہاں تم نے جگایا ہے ۔۔ تم نے بوتل سمندر میں پھینکی تھی۔ ۔ ۔ وہ میرے سر پر لگی اور میری نیند ٹوٹ گئی۔ ۔ ۔ تم نے مجھے کیوں جگایا۔ ۔ ۔‘
میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ‘ میں نے آپ کو نہیں جگایا تھا، میں نے تو بس بوتل سمندر میں پھینکی تھی۔ ۔ ۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ وہاں سو رہے ہیں اگر مجھے پتا ہوتا۔ ۔ ۔ ۔‘
میں ابھی بول رہا تھا کہ سمندرکا دیوتا بڑبڑایا ۔ ۔ ۔’ اچھا اب جگا دیا ہے تو بتاؤ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے۔ ۔ ۔ تم اپنی قسمت کو بھرا بھلا کیوں کہہ رہے تھے۔ ۔ کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔‘
مجھے میں خوف میں مبتلا دیکھ کر دیوتا گویا ہوا ’ تم ڈرو نہیں، مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔‘
میں نے پھر ڈرتے ڈرے کہا ’ پکا مجھے کوئی نقصان تو نہیں دو گے نا۔ ۔ ۔‘
دیوتا نے کہا ‘ ہاں ہاں۔ ۔ ۔ میں تم کو کوئی نقصان نہیں پہچاؤنگا۔‘
دیوتا کی باتیں سن کر مجھ میں ہمت پیدا ہوئی۔ ۔ ۔ اور میں نے پوچھ ہی لیا ۔ ۔’مجھ سے آج تک کسی دیوی یا دیوتا نے نہیں پوچھا، یہ اچانک آپ مجھ پر اتنے مہربان کیسے ہوگئے۔‘
دیوتا کہنے لگا۔۔ ’ دوسروں کا پتا نہیں، میں تم پر مہربان نہیں ہوا۔ ۔ ۔ بات صرف اتنی ہے کہ آج نیند سے جاگنے کے بعد میرا موڈ اچھا ہے، اگر خراب ہوتا تو تم یہاں زندہ نہ ہوتے بلکہ تمہاری لاش ساحل پر پڑی ہوتی۔ ۔ ۔‘
دیوتا کی باتیں سن کر میں سہم گیا۔
میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ’۔ ۔ ۔ ۔ آپ میرے لئے کیا کر سکتے ہو۔ ۔‘
دیوتا کہنے لگا ’میں تمہاری کوئی بھی ایک خواہش پوری کر سکتا ہوں، تم کچھ بھی مانگ سکتے ہو۔ ۔ ۔‘
میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا مانگوں، مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ۔ ۔ میں اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ دیوتا پھر مخاطب ہوا۔ ’دیکھو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے، تم کو جو مانگنا ہے مانگ لو، یا پھر میں کوئی ایک وردان (دعا) تم کو دے دوں۔ ۔ ۔‘
مجھے اب بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا مانگوں۔ ۔ ۔عجلت میں، میں نے دیوتا سے کہا ‘ آپ جو چاہیں مجھے وردان ( دعا) دے دو۔ کیونکہ آپ سے میرا حال چھپا ہوا نہیں ہے۔ میری بات سن کر دیوتا نے کہا
’ میں تم کو وردان دیتا ہوں کہ تم اب سے دوسروں کی سوچ پڑھ سکو گے، وہ تمہارے بارے میں جو سوچتا ہے وہ اس کے کہے بغیر تم جان جاؤگے۔ ‘ دیوتا یہ کہہ کر سمندر میں غائب ہوگیا اور میں وہیں ساحل پر کھڑا رہا۔
سورج طلوع ہوا تو میں ساحل چھوڑ کر گھر کی طرف آنے لگا۔ بس میں سفر کے دوران میرے ساتھ ایک شخص آکر بیٹھ گیا۔ رات بھر جاگنے کے باعث میں سفر کے دوران اونگھ رہا تھا جس پر اس شخص نے مجھے مسکراتے ہوئے دو تین بار ٹوکا لیکن میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔ اچانک مجھے دیوتا کا دیا ہوا وردان یاد آیا۔ میرے ساتھ بیٹھا شخص میرے بارے میں کیا سوچتا ہے یہ جاننے کے لئے میں نے اپنی اِندر شکتی کو جگایا اور اس کی طرف دیکھا۔
مسافر سوچ رہا تھا کہ ’ انتہائی گھٹیا انسان ہے جو بس میں سو رہا ہے، لگتا ہے گھر میں بیوی سونے نہیں دیتی۔‘ اپنے بارے میں جان کر میں مسکرا دیا۔
گھر پہنچا تو بیوی نے رات نہ آنے کا سبب پوچھا میں نے کہا کہ رات ایک دوست کے پاس رک گیا تھا۔
میری بات سن کر وہ مطمئن نہ ہوئی، لیکن کچھ کہے بغیر کچن میں چلی گئی۔ اس کی سوچ پڑھنے کے لئے میں بھی اس پیچھے کچن میں چلا گیا۔ اس کی سوچ میں تھا کہ ’موئے نے رات پتا نہیں کس لڑکی کے ساتھ گذاری ہے اور مجھ سے جھوٹ موٹ کا ناٹک کررہا ہے کہ دوست کے گھر تھا، بڑا ہی جھوٹا ہے۔ ۔ ۔‘
بیوی کی سوچ جان کر میں حیران رہ گیا۔
شام کو دفتر پہنچا تو سارا اسٹاف مجھ سے پہلے پہنچ چکا تھا۔ دیر سے آنے پر ایڈیٹر نے مجھے بہت جھاڑا۔ میں چپ چاپ اپنی ڈیسک پر آکر بیٹھ گیا۔
ایک ساتھی نے پاس آکر کہا ’باس نے بھرا بھلا کہا ہے کیا‘ میں نے کہا ’ نہیں بس دل لگی کی ہے‘ میری بات سن کر وہ ہمدردی جتاتے ہوئے کہنے لگا ’باس بڑا ہی کمینا ہے، بلا وجہ اسٹاف کی بے عزتی کرتا رہتا ہے۔‘ میں چپ چاپ اس کی بات سنتا رہا، پھر میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی سوچ میں پایا۔ ۔ ۔ میری بے عزت پر وہ خوش تھا اور کہہ رہا تھا کہ ’بچو تمہارا پتا یہاں سے میں نے نہ کٹوایا تو میرا نام نہیں۔ ‘
اس طرح میں نے دفتر کے دیگر اسٹاف کی سوچ بھی جانی، کوئی دوست، کوئی رقیب تو کوئی اپنے من کا موجی تھا۔
تھکا ہارا رات کو گھر پہنچا۔ ۔ ۔ بیٹے نے گھیر لیا اور کالج کے امتحانی فارم بھرنے کے لئے فیس طلب کی۔
میں کہا ’پچھلے سے پچھلے مہینے بھی تم نے فیس لی تھی، اب دوبارہ کیوں۔ ۔ ۔‘
وہ بولا ۔ ۔ ۔’ پپا کہاں لی تھی ۔ ۔ ۔ آپ بھول گئے ہیں۔ ۔ ۔‘ میں اسکی بات سن کر چپ ہو گیا اور خاموشی سے اسے فیس دے دی۔
کھانا کھانے کے دوران میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو وہ بہت خوش دکھائی دیا۔ اس کی سوچ کو پڑھنے پر معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پیسے بٹورنے پر خوش تھا اور کہہ رہا تھا ’ پپا کو کیسا الو بنایا ۔ ۔ ۔
پیسوں کا بندوبست ہو گیا ہے، اب کل میں سونیا کو ڈیٹ پر لے جاؤں گا۔۔۔‘
میں سوچ پڑھ کر پریشان ہو گیا کہ یہ میرے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔
اگلی صبح کو موبائل فون میں میسیج آیا، دیکھا تو نسیم کا تھا۔ ۔ بہت دنوں کے بعد اس نے رابطہ کیا تھا۔
اس نے شام کو ملنے کا کہا تھا۔ میں نے گھر سے نکلنے کے بعد اس سے رابطہ کیا اور شام کے بجائے کل دوپہرمیں کافی شاپ پر ملنے کا پروگرام بنایا۔
اگلی دن دوپہر میں ہم کافی شاپ میں ملے۔ اس نے بہت گلے شکوے کئے، میں نے بھی اس سے شکایتیں کیں۔ پھر ہم بہت دیر تک خاموش رہے۔
میرے پوچھنے پر بھی اس نے مجھے کچھ نہ بتایا۔ میں بھی چپ ہوگیا لیکن اس کی سوچ پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اورچھوٹا بھائی بیمار تھا، مالی طور پر بہت پریشان تھی۔ اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کس طرح مدد کے لئے کہے۔ ۔ ’میں نے اس کی سوچ پڑھنے کے بعد اسے کچھ نہ کہا اور کچھ لینے کے لئے کافی شاپ سے باہر چلا گیا۔
بک شاپ سے لفافہ لے کر اس میں کچھ رقم رکھ کر واپس آیا اور لفافہ اسے دیتے ہوئے کہا کہ ’ تم پریشان ہو یہ تو ظاہر ہے لیکن تم بتا نہیں رہی ہو، خیر ۔ ۔ کوئی بات نہیں، اس میں کچھ رقم ہے تمہارے کام آئیگی۔ ۔‘ اس نے لفافہ نہ لیا تو میں نے اس کے پرس میں رکھ دیا۔ کافی شاپ سے نکل کر اسے میں نے بس میں بٹھایا اور خود نیٹی جیوٹی پل پر آگیا۔ نیچے سمندرکے پانی سے سورج کی کرنیں شرارتیں کر رہی تھی اور میں سمندر دیوتا کے وردان کے بعد کے حالات پر سوچتا رہا۔
سورج کے غروب ہونے سے پہلے میں سیدھا دفتراور پھر رات کو گھر آگیا۔ بستر پر لیٹا لیکن آنکھوں سے نیند دور تھی جبکہ نیند کی جگہ وردان کے بعد کے حالات تھے۔
سمندر کے دیوتا سے ملنے کے بعد جو کچھ رونما ہوا، اس نے پریشان کردیا۔ صبح تک کروٹیں بدلتا رہا لیکن ایک جھپکی بھی نصیب نہ ہوئی۔ دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ امین کا فون آیا اس نے رات کو پارٹی میں آنے کا کہا۔ میں نے اسے۔ ۔’ ٹھیک ہے۔ ۔ ‘ کہا اور پھر بیوی کو رات گھر نہ آنے کا کہہ کر دفتر چل دیا۔
رات ایڈیٹر سے جلدی چھٹی لی اور امین کے گھر پہنچا، جہاں پر کچھ اور بھی دوست موجود تھے، مجھے دیکھ کر کچھ چہرے خاموش تو کچھ بہت خوش ہوئے۔ دوستوں کی سوچ پڑھنے کے بعد وہاں مزید بیٹھنے کا دل نہیں کیا اور امین کو بغیر بتائے وہاں سے نکل آیا۔
میرے قدم نہ چاہتے ہوئے بھی ساحل کی طرف بڑھ گئے، میرے قدم مجھے ٹھیک اسی جگہ لے آئے جہاں سمندر کے دیوتا نے مجھے وردان دیا تھا۔
میں ساحل پر خاموش آکر بیٹھ گیا، نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ پھر میں چینخ پڑا۔ ۔ ’نہیں چاہیے مجھے وردان۔ ۔ ۔ نہیں چاہیے۔ ۔ ۔ میں جس حال میں تھا اسی میں خوش رہ لونگا، اس وردان کے بعد میرا رشتوں سے اعتماد اٹھا گیا ہے۔ ۔ ۔ ‘ میں ابھی خاموش نہ ہوا تھا کہ ایک بار وہی سنی سنائی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ۔ یہ سمندر کا دیوتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ’ ٹھیک ہے میں اپنا دیا ہوا وردان واپس لیتا ہوں ۔ تم اپنی زندگی اپنی طریقے سے جیو۔‘
صبح کو جب گھر پہنچا تو دروازے پر بیوی نے ہنس کے استقبال کیا اور بولی کہ ‘ آپ رات دوستوں کے ساتھ پارٹی میں تھے، پارٹی کیسی رہی۔’ میں بیوی کی بات سن کر مسکرا دیا۔
♦