بائیس سال کے بعد28 مارچ کی سہ پہر جناب عظمیٰ گل صاحبہ صاحبزادی جناب جنرل حمید گل صاحب مرحوم سابق ڈی جی آئی ایس آئی ایک مرتبہ پھر تھانے میں درخواست دینے آئی تھیں ۔لیکن اب کی بار زمانے کے بدلے ہوئے تیور نے ان کو ما ضی کا بہت کچھ یاد دلادیا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب جنرل حمید گل صاحب ابھی بقید حیات تھے ۔24 اکتوبر 1996 کی شام جناب عظمیٰ گل صاحبہ کی صاحبزادی اپنے سکول فرابلز انٹرنیشنل اسلام آبادسے واپس آتی ہے اور اپنی امی کو بتاتی ہے کہ اُن کو سکول میں اسلامیات کے نام پر کچھ عجیب و غریب اشیاء پڑھائی جا رہی ہیں مثلاً
۔1 ۔ زمین وآسمان خدائے واحد نے نہیں بلکہ تین خداؤں زیم ،می بئیر، اور نکوانے نے بنایا۔
۔2۔ نبی کریم نعوذباللہ کی بطن مادر کے اندر کی تصویر کشی
۔3 ۔ اللہ کے تخت کے چارپایوں کو چار درندوں نے سہارا دیا ہوا ہے
۔4 ۔ ’’خدا کے خلاف بغاوت‘‘کے تحت ذکر ہے کہ زیم۔می بئیراور نکوا نامی خداؤں نے اپنے جیسی مخلوق انسان بنائی اور پہلے انسان کا نام’’فیم‘‘رکھا۔اس کو عقل اور حسن دیا مگر یہ فیم دیگر جانوروں سے خوبصورت ہونے کی وجہ تکبر کرنے لگا اور خدا سے بغاوت کے نغمے الاپنے لگا۔خدا نے غضب ناک ہوکر پوری دنیا پھونک ڈالی لیکن چونکہ تخلیق کرتے وقت وہ کہہ چکا تھا کہ تم کبھی نہیں مرو گے اس لیے یہ پہلا انسان جل جانے کے باوجود زندہ ہے۔
۔5 ۔خدا نے زمین پر نگا ڈالی اور اسے خاکستر دیکھ کر شرمندہ ہوا اور درخت اگا دئیے۔
۔6 ۔’’روشنی اور روحیں‘‘نامی باب میں حضرت جبرائیل اوراسرافیل اور عزرائیل کی تصاویر کشی۔
(مگرفرابلز انٹرنیشنل سکول میں پڑھائی جانے والی اسلامیات کی کتاب کی مکمل تفصیلی رپورٹ ہفت روزہ تکبیر14نومبر1996ءمیں زیرعنوان’’افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی‘‘صفحہ8تا11اور اسی شمارے میں زیر عنوان’’کفر کی تعلیم اور توہین رسا لت‘‘ 16تا19ملاخطہ کی جاسکتی ہے)۔
عظمیٰ گل صاحبہ یہ سب سن کر بہت حیران ہوتی ہیں اور فوراً تھانہ کوہسار اسلام آباد میں مقدمہ درج کروانے پہنچ جاتی ہیں ۔تھانے دار صاحب کے سامنے پاکستان کے پاورفل جنرل کی بیٹی بیٹھی تھی مگر وہ جن کے خلاف 295اے اور 295 سی کا مقدمہ درج کرنے کی ضد کر رہیں تھیں وہ فرابلز انٹرنیشنل ایف سیون ٹو اسلام آباد کے مالک جناب سعد خان صاحب کی ذات گرامی تھی۔ ممدوح محترمہ صبیحہ ضمیر صاحبہ اور ایڈمرل ضمیر صاحب کے فرزند ارجمند اور جناب ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کے داماد گرامی تھے ۔
یا درہے یہ وہی سکول ہے جس میں کسی زمانے میں بلاول زرداری بھٹو بھی پڑھا کرتے تھے۔نتیجتاً تھانے دار صاحب اپنے حوصلے اور عہدے کے مطابق ترلہ ہی کر سکتے تھے سو وہ ترلے اور منت سماجت کرکے مہلت مانگتے رہےمگر رپورٹ درج کرنے سے ٹال گئے۔
اگلے دن کی صبح نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ جماعت اسلامی سے متعلق 80 کے قریب وکلاء نے بار ایسوسی ایشن میں ایک قرار داد پاس کی اور کمشنر اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا اور پورا اسلام آباد کفر واسلام کے نعروں سے گونجنے لگا۔کمشنر صاحب نے ڈی سی اور ایس ایس پی اسلام آباد کیپٹن (ریٹائرڈ) جمیل کو بلوایااور عظمیٰ گل صاحبہ کا مئوقف سنا اور اسکے بعد ایف آئی آر کاٹنے کا عندیہ دے دیا ۔چنانچہ اسی روز سوا گیارہ بجے 295 اے اور 295 سی کے تحت جناب سعد خان صاحب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
یہ بات آج مجھے اس لئے یا د آئی جب میں جناب جاوید چوھدری کاکالم زیر عنوان ’’ افغانوں کا بے گناہ لہو بول رہا ہے ‘‘ پڑھا۔آپ نے لکھا ہے کہ عظمیٰ گل صاحبہ نے اُن کو فون کرکے اپنے بھائیوں کے خلاف اپنی دکھ بھری بپتا سنائی ہے۔اس سے قبل 28 مارچ 2018 کو اُنہوں نے تھانہ ائیر پورٹ میں اپنے بھائی عبداللہ گل کے خلاف باقاعدہ درخواست دی ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ عبد اللہ گل نے جائیداد پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ والدہ اور میرا حصہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ یہ ماں اور بہن کے ساتھ بد کلامی بھی کرتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے۔
عظمیٰ گل صاحبہ نے مجھے فون کرکے بتایا کہ جنرل صاحب کے بیٹے عبد اللہ اور عمر والد کی پنشن تک کھا جاتے ہیں ۔ والدہ علیل ہیں ۔ ان کی حالت بہت خراب ہے ۔ عمر گل آسٹریلیا میں جا بیٹھا ہے۔ عبد اللہ گل والد کے ساتھ بھی گستاخی اور بد تمیزی کرتا تھا اور والد ان بد تمیزیوں کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے ‘‘۔
بھائی اس کے الٹ بیان کر رہے ہیں کہ بہن زیادتی کر رہی ہے اور بھائیوں کی جائیداد ہتھیانا چاہ رہی ہے۔دونوں میں سے کون درست ہے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی دشمن کو بھی ایسا دن نہ دکھائے کہ باپ بیٹوں کی گالیوں کے زخم جھیلتا اس دنیا سے رخصت ہو۔ اور ماں دکھوں اور بیماریوں سے چور یہ نظارہ دیکھنے کے بعد بھی زندہ ہو ۔
جس بات نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا وہ ہےزمانے کے بدلتے رنگ اور چڑھتے سورج کو سلامی اور جانے والوں سے رشتہ توڑنے کی جلدی۔ اگر جنرل صاحب زندہ ہوتے توعظمیٰ گل صاحبہ کو کسی کالم نگار کو فون کرکے اپنی بپتا نہ سنانا پڑتی ۔ جماعت اسلامی کے کرتا دھرتا یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک سے ایک آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے۔مگر افسوس اب جنرل صاحب نہیں رہے وہ جنرل صاحب جن کی جماعت اسلامی کے لئے بے تحاشا خدمات ہیں تو ان کی اولاد کی جوتیوں میں بٹتی دال کو کوئی سنبھالنے والا نہیں۔
آج سے چند دن قبل چوہدری شجاعت صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی میں تقریر کرتے ہوئے جناب شیخ رشید صاحب نے بھی ایک ایسا ہی انکشاف کیا تھا یعنی صحافت کے بڑے نام اور جماعت اسلامی کا چٹان کے صفحات پر سال ہا سال کیس لڑنے والے جناب آغا شورش کاشمیری صاحب بھی دوائی کے پیسے نہ ہونے پر بیماری سے فوت ہو گئے۔ بعد میں ان کی اولاد کے بارے میں بڑی دردناک خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔
شایدجماعت اسلامی کی ایسی ہی تاریخ کی بناء پر جناب مودودی صاحب اور قاضی حسین احمد صاحب نے اپنے بچوں کو اپنی زندگی میں ہی امریکہ میں سیٹل کر لیا تھا ۔جناب مودودی صاحب تو اپنی زندگی کی ڈور جھولتے دیکھ کر فوراً امریکہ نکل لئے اورآخری دن وہیں بتائے اور وہیں پر وفات پائی ۔قاضی حسین احمد نے بھی ساری دنیا کے بچوں کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا اور اپنے بچوں کو ولائیت کی یو نیورسٹیوں میں۔
لیکن تاریخ کا یہ ایک انمٹ سبق ہے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور بد دعا کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی چاہے ہاورڈ یونیورسٹی سے بچوں کو پڑھا لیں یا آسٹریلیا میں چھپا لیں۔
♦
One Comment