علی احمد جان
سنہ1973 ء کے آئین کی شق نمبر ۲ میں بیان کئے گئے ملک کے دائرہ سے باہر دو علاقے ہیں جو آئینی اور قانونی طور پر ریاست پاکستان کے لئے اجنبی ہیں وہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان ہیں۔ داخلی طور پرآزاد جموں و کشمیر کی حیثیت ایک نیم خود مختار ریاست جیسی ہے جس کا اپنا آئین ، صدر وزیر اعظم اور مقننہ موجود ہے۔ گلگت بلتستان کو2009ء میں ایک صدارتی حکم نامےکے ذریعے سے ایک ایسا صوبہ بنایا دیا گیا جو آئینی اور قانونی طور پر اجنبی ہوتے ہوئے انتظامی طور پر حکومت پاکستان کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
آزاد کشمیر کے1973کے عبوری آئین اور گلگت بلتستان کو دئیے گےانتظامی ڈھانچے میں عہدوں کے علاوہ کوئی خاص فرق نہیں۔ آزاد کشمیر کے صدر کی جگہ یہاں گورنر اور وزیر اعظم کی جگہ وزیر اعلیٰ کا نام دیا گیا ۔ دونوں کے لئے قانون سازی کے ایوان بالا کے طور پر ایک کونسل رکھی گئی ہے جس کا چئیرمین وزیر اعظم پاکستان اور پچاس فیصد ارکان حکومت پاکستان کی پارلیمنٹ سے نامزد ہوتے ہیں ۔ پارلیمانی جمہوریتوں کے ایوان بالا و زیریں کے برعکس یہاں اختیارات اور دائرہ کار بھی قانون ساز اسمبلی اور کونسل میں منقسم ہیں ۔
قانون سازی کے مضامین بھی دونوں ایوانوں میں ایسے تقسیم کئے گئے ہیں کہ بلدیاتی یا شہری امور قانون ساز اسمبلی کے پاس ہیں اور اہم انتظامی، معاشی اور سیاسی فیصلے کونسل کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ چونکہ کونسل کا چئیرمین وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے جس کی کونسل کے اجلاس میں لازمی قانونی امور نمٹانے کے لئے چند لمحوں کی شرکت کے دوران قانون سازی اور اس پر بحث ہونے کی نظیر آزاد کشمیر میں 1973 ءسے اب تک نہیں ملتی ہے تو گلگت بلتستان میں ایسا کیسے ممکن ہے۔ بہ الفاظ دیگر ایوان بالا یا کونسل ایک عضو معطل کی مانند ہے جس کے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا مگر اس سے متعلقہ قانون سازی کے نہ ہونے سے ان علاقوں میں محرومیاں اورمشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
عدلیہ کا ڈھانچہ بھی دونوں خطوں میں کچھ یکساں ہے۔ آزاد کشمیر میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہے تو گلگت بلتستان میں اس کانام چیف کورٹ اور سپریم اپیلیٹ کورٹ دیا گیا ہے۔ چیف کورٹ ججوں کی مراعات کے لحاظ سے ہائی کورٹ کے برابر اور سپریم اپیلیٹ کورٹ کے ججوں کی مراعات سپریم کورٹ آف پاکستان کے برابر ہوتی ہیں۔ ججوں تقرری حکومت کی مرضی سے ایک معین مدت کے لئے ہوتی ہے جس میں توسیع بھی حکومت کی صوابدید ہے ۔ججوں کے حصول ملازمت اور توسیع مدت ملازمت کی حکومتی صوابدید سے عدالت کتنی با اختیار رہتی ہے اس پر میرے تبصرے کی ضرورت نہیں ان عدالتوں کے فیصلے خود ثبوت ہیں۔ آزاد کشمیر میں صدر ریاست کو اختیار ہے کہ وہ عدالتوں کے سزاؤں میں تخفیف یا معاف کرسکتا ہے مگر گلگت بلتستان میں یہ بھی ممکن نہیں۔
گلگت بلتستان میں جو انتظامی اور قانونی ڈھانچہ فراہم کیا گیا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی بہت کم گنجائش ہےقانون سازی کے مضامین کی تقسیم کے نتیجے میں قانون ساز اسمبلی ایک بلدیاتی ادارے سے زیادہ قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی اور کونسل میں پاکستان کے دوسرے علاقوں سے غیر منتخب ممبران کی اکثریت سے اس کی دلچسپی قانون سازی میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
معدنیات کے شعبے میں کونسل نے دلچسپی دکھائی بھی مگر عوامی امنگوں کے برعکس قانون سازی کی تجاویز پر سخت رد عمل سامنے آیا تو الٹے پیروں پسپائی اختیار کرنی پڑی ۔2009ء کے صدارتی حکم نامے میں عدالتی انتظام میں عدالت اور گلگت بلتستان کونسل کو مل کر تبدلی لانے کی تجویز دی گئی ہے مگر ایسا ہونا عملی طور پر ممکن اس لئے نہیں کہ دونوں اداروں میں تعاؤن کا کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں۔
گلگت بلتستان میں قانون سازی کی بہت زیادہ ضرورت اس لئے بھی ہے کہ یہاں کسی قانون کی کبھی نظر ثانی نہیں ہوئی۔ سرکاری منصوبوں کے لئے حصول اراضی کا برطانوی راج کا قانون 1894 ء ابھی تک چل رہا ہے جبکہ پاکستان کے تمام صوبوں میں اس میں تبدیلیوں اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں یہ بدل چکا ہے مگر گلگت بلتستان میں اس میں بغیر تبدیلی کے چلا یا جارہا ہے۔
اسی طرح صوبائی دائرہ اختیار کے کئی قوانین ہیں جن پر نظر ثانی کی اسمبلی میں نہ اہلیت ہے اور نہ اہمیت۔ کچھ قوانین بین الاقوامی اور غیر سرکاری تنظیموں کی تکنیکی اور مالی تعاون سے قانون ساز اسمبلی نے بلا تامل منظور بھی کئے مگر عمل درآمد کا خانہ ابھی تک خالی ہے جن میں سے ایک بلدیاتی اداروں کی بحالی کا قانون بھی ہے۔ 2009ء سے اب تک اگرگلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اسمبلی نے صرف وہی قوانین منظور کئے جو یا تو وفاقی حکومت کی ضرورت کے تھے یا غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں نے اپنی ضرورت اور کارکردگی کے لئے پیش کروائے۔اس اسمبلی نے بھی دیگر صوبائی ا سمبلیوں کے طرز پر پارلیمانی سیکرٹری اور کمیٹیوں کے چیئرمین بھی مقرر کر رکھے ہیں مگر عملاً وہ بھی حکومتی کارکردگی پر نگرانی کرنے سے زیادہ اس کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں احتساب اور جائزے کا عمل بھی موقوف ہے۔
گلگت بلتستان کے عام لوگوں کی زندگیوں میں ان انتظامی تبدیلیوں سے کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ عوامی خدمت کے لئے بلدیاتی اداروں کے انتخابات گزشتہ 15 سالوں میں نہیں کروائے گئے جس کی وجہ سے یہاں افسر شاہی کا راج ہے۔ صدارتی حکم نامے میں ایک پبلک سروس کمیشن بنانے کا بھی ذکر ہے مگر اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
پبلک سروس کمیشن نہ ہونے کی وجہ سے کلیدی سرکاری عہدوں پر من پسند افراد کی افراد کی بھرتیوں سے سرکاری محکموں میں اقرباء پروری اور فرقہ ورایت کا دور دورہ ہے۔ پہلے کسی کام کے لئے ایک دفتر سے واسطہ پڑتا تھا اب دفتروں کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار پہلے سے زیادہ خراب ہے ۔ گلگت شہر میں نام نہاد صوبائی دارلحکومت ہونے کے باوجود ثانوی سطح (ٹرشری لیول) کا بھی کوئی ہسپتال موجود نہیں۔
ملک کے دوسرے حصوں میں تو کسی شہری کو اس کے بنیادی حقوق نہ ملیں تو وہ اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے کیونکہ اس کو آئین حقوق کی ضمانت دیتا ہے مگر گلگت بلتستان کا صدارتی حکم نامہ مجریہ 2009ء نہ آئین ہے نہ قانون تو اس میں مذکور بنیادی حقوق کی تلفی کی داد رسی کیسے ہو؟ اگر کسی جج یا آفسر نے اس حکم نامے کی پاسداری کا حلف ہی نہ لیا ہو تو اس پر عمل دراآمد کی ذمہ داری اس پر عائد کیونکر ہو؟ کوئی شہری کس قانون اور آئین کے تحت اپنے شہری اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرے؟
عام شہری تو دور کی بات ہے یہاں سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کوانسداد دہشت گردی اور غداری جیسے سنگین مقدمات میں سزائیں دی گئی ہیں مگر ان کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں عدالتیں یہی سے شروع ہوکر یہی ختم ہوجاتی ہیں۔
ایک سیاسی کارکن بابا جان کو ان کے خلاف انتخابی عذرداری کے ایک مقدمے میں سپریم اپیلیٹ کورٹ کی طرف سے ۸۰ سال کی سزا دی گئی جس کے بعد اپیل کی بھی کوئی عدالت نہیں اور اس سزا میں تخفیف یا معافی کے صدر پاکستان کے دائرہ اختیار میں آنے یا نہ آنے کا سوال بھی گلگت بلتستان کا پاکستان سے تعلق کی مانند ہے جس کے ہونے کی طرح نہ ہونے کا بھی یقین نہیں ۔
حال ہی میں گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ کے چیف جج اور وکلاء کے درمیان عدالت میں ججوں کی تعیناتی پر اختلاف ہوا۔ چیف جج یہاں ایک ممبر جج کی خالی ہوئی اسامی پر گلگت بلتستان سے باہر سے کسی کو لانا چاہتے ہیں جبکہ وکلاء اس اس پر کسی مقامی شخص کا ہی حق سمجھتے ہیں۔ وکلاء نے چیف جج کے اس موقف کے خلاف اپنا احتجاج کا حق استعمال کیا تو ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے تین وکلاء پر تاحیات بطور وکیل پریکٹس کرنے پر پابندی لگادی اور دو وکیلوں کو انتباہ کیا گیا ۔ ایک سیاسی موقف پر ایسی سخت سزا خود ہی یہاں عدالتی رویئے کا مظہر ہے جس پر مزید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
گلگت بلتستان جو پاکستان کے آئینی دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور جس کا اپنا کوئی آئینی ڈھانچہ موجود نہیں یہاں انسانی حقوق کی پامالی ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے جس کا اظہار انسانی اور شہری حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بارہا کیا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں وکلا ء خود اپنے بنیادی پیشہ ورانہ حق کا دفاع نہیں کرسکتے گلگت بلتستان میں جو سیاسی کارکن انسداد دہشت گردی، غداری اور دیگرسنگین نوعیت کے مقدمات بھگت رہے ہیں ان کے خلاف الزامات کی شفاف تحقیقات اور مقدمات ایک سوالیہ نشان ہے۔
♦