پاکستان ایسی ریاست ہے جو اپنے قیام کے 70 سال بعد بھی اپنے لیے کسی نظام حکومت پر متفق نہیں ہوسکی۔ بھارتی رہنماؤں کے برعکس پاکستان کے حصول کے لیے جو شخصیات سرگرم تھیں انہیں جمہوریت کی بجائے اقتدار حاصل کرنے اور اسے مضبوط بنانے میں دلچسپی تھی۔ پاکستانی قیادت نے جمہوری ادارے بنانے کی بجائے قبضہ کرنے کی سیاست شروع کی۔ مذاکرات کی بجائے ریاست قلات پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا ، خیبر پختونخواہ کی منتخب حکومت کو فارغ کر دیا اورکشمیر کو فتح کرنے کے لیے قبائلی بھیج دیئے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی جتنی بھی قیادت تھی اسے جمہوریت سے کوئی غرض نہیں تھی۔ مسلمان اور جمہوریت دو متضاد نظریے ہیں۔نظریاتی افراد چاہے وہ دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہوں یا بائیں بازو سے، کو جمہوریت راس نہیں آتی۔ سوشل میڈیا پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کا خیال ہے کہ
“مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1973کا آئین پنجاب اور سندھ کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا پنجاب ، سندھ ، (اس وقت کے) سرحدی صوبے , بلوچستان اور بچی کھچی فیڈریشن کے عوام اور دوسرے تمام طبقات کے ساتھ (کم سے کم حقوق دینے کا ) نیا وعدہ / معاہدہ تھا – اس وعدے / معاہدے نے اس سے پہلے ہونے والے ہر وعدے / معاہدے کو replace کیا تھا۔ اس وعدے / معاہدے کی بھٹو مرحوم نے کئی بار خلاف ورزی کی جب کہ ضیاء لحق مرحوم نے اسے پرزے پرزے کر دیا ۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ میں اس متروک وعدے / معاہدے کا پابند نہیں ہوں تو یہ اس کا حق ہے ۔ کوئی Truth and Reconciliation Commission عوام کو ان کے حقوق تو کیا دے گا صرف ان زیادتیوں کا ازالہ بھی نہیں کر سکتا جو اس وعدے / معاہدے کے بعد کی گئیں” ۔
آئین کے متعلق کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار طالبان بھی کرتے ہیں اور ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیڈر بھی جو اسی آئین کے تحت اقتدار میں آتے ہیں۔ترکی کےہر دلعزیز صدر طیب اردعان کا قول ہے کہ جمہوریت ایسی ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو اتر جائیں۔
نظریاتی لوگوں کا، چاہے ان کا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے، المیہ یہ ہے کہ انہیں جمہوریت کا تصور ہضم نہیں ہوپاتا۔ آئین پر بالواسطہ تنقید کرکے وہ دراصل جمہوریت کو نشانہ بناتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں ہوں یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ، جمہوریت کو سرمایہ داروں اور وڈیروں کا گٹھ جوڑ قراردیتی ہیں جو ان کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے جس میں غریب آدمی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کے پاس خوش کن نظریات کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کہ وہ اقتدار میں آسکیں۔اقتدار میں آنے کے لیے جمہوریت کو ہی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ سالوں میں نیپال میں بھی جب ماؤسٹ جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے تو انہیں سرمایہ دارانہ پالیسیوں پر ہی عمل کرناپڑرہا ہے۔ حکومت بنانے کے بعد ان ماؤسٹوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی۔
پاکستان میں سیاستدانوں کی جرنیلوں سے جمہوریت کے لیے لڑائی جاری ہے ۔ یہ سیاست دانوں کی جدوجہد ہی تھی جس کے نتیجے میں بالآخر 1973 میں ایک متفقہ آئین بن گیا۔۔۔ یہ درست ہے کہ بھٹو نے آئین کے منظور ہوتے ہی اس میں بے شمار تبدیلیاں کر لیں۔ ۔۔۔ اور پھر ضیا نے اس کا حلیہ ہی بدل دیا۔۔۔۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کہے میں اس معاہدے کا پابند نہیں۔اس طرح معاشرے میں خانہ جنگی تو ہو سکتی ہے مگر مسئلے کا حل نہیں۔
یہ سیاسی جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے ڈکیٹیر شپ کا راستہ روکنے کے لیے پہلے میثاق جمہوریت دستاویز تیار کی اور پھر اس کے مطابق آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی۔ گو اس میں مکمل طور پر میثاق جمہوریت کی مطابق ترامیم نہ ہوسکیں مگر اس کے باوجود بالادست قوتوں کو اس میں خطرہ نظر آتا ہے۔
آئین آسمان سے اترنے سے تو رہا۔۔۔ اسے سماج میں موجود لوگوں نے ہی بنانا ہوتا ہے۔۔۔آئین جیسا بھی ہو ایک جمہوری حکومت کی بنیاد ہوتا ہے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بالادست قوتوں کو آئین سے خطرہ ہوتا ہے جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں۔ مگر اب تک موجود نظاموں میں جمہوریت بہترین نظام ہے۔۔۔
مگر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی بھی نظام آئیڈیل نہیں ہوتا۔آئیڈیل کا وجود کتابوں میں ہی مل سکتا ہے۔۔
سماج میں کہیں بھی تبدیلی بٹن دبانے سے نہیں آتی بلکہ یہ مسلسل جدوجہد کا تسلسل ہے۔۔اس جدوجہد میں بے شمار لوگوں کی قربانیاں شامل ہوتی ہیں ۔ یورپ میں بھی جمہوریت کئی سو سال کی قتل و غارت و خانہ جنگی کے بعد پروان چڑھی۔پاکستان میں سیاست دان ابھی جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ یہ سماجی ارتقا ہی ہے جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت جیسی دستاویز بنی اور اس پر کسی حد تک عمل بھی ہوا اور یہی عمل ہماری عسکری ایسٹیبشلمنٹ اور اس کی پروردہ عدلیہ کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔
♦
2 Comments