آصف جاوید
میرے ہم وطنوں، خبردار ہوجاؤ، وقت تیزی سے بدل رہا ہے، دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہورہی ہے۔ سماجیات ، سیاسیات، اور اقتصادیات کے نظریات بدل رہے ہیں، نئے نظریات دنیا کی معیشت اور سماج کو بدل رہے ہیں۔ اے میرے ہم وطنوں ، تمہاری زبانیں، تمہاری ثقافتیں ، تمہاری تہذیبیں، تمہاری قومیتیں، تمہاری معیشتیں ، تمہاری جاگیرداریاں ، تمہارے فخر و غروراور تمہارے ایک دوسرے کو جاہل اور پناہ گیر ہونے کے طعنے تشنے، تمہاری نفرتیں، تمہاری عداوتیں ، سب آنے والے سیلاب میں بہہ جائیں گی۔
نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے بعد دنیا کا سماجی ڈھانچہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ اب طاقتور وہ ملک نہیں جس کے پاس سب سے زیادہ جنگجوفوج یا تباہ کن اسلحہ ہے۔ اب طاقتور وہ ملک ہے جس کی معیشت مضبوط اور سماج ترقّی پسند ہے، جس کی اقتصادیات قرضوں کی معیشت کی بجائے ریزرو فنڈ کے ذخائر اور برآمدات کی آمدنی پر مبنی ہے۔
اب دنیا میں ترقّی حاصل کرنے کے لئے، روشن خیالی، ترقّی پسندی اور جمہوریت، اور آزاد معیشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلا امتیاز مذہب، عقیدہ، زبان ، لسّانیت، قومیت، رنگ و نسل ، ہر انسان کو مساوی شہری حقوق اور وسائل اور اقتدار میں شراکت دینی ہوتی ہے۔ نسل پرستی، قوم پرستی، فرقہ واریت، مذہبی و لسّانی نفرتوں کا خاتمہ کرکے ایک متوازن اور معتدل معاشرہ ترتیب دینا ہوتا ہے، تب جاکر دنیا کا کوئی ملک ترقّی پذیر ملک کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ اب نسل پرستی، قوم پرستی، مذہب اور عقیدے کی سیاست کادور ختم ہوگیا ہے۔ اب سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی کا دور ہے۔
اے میرے ہم وطنو، موجودہ پاکستان اب وہ پاکستان نہیں رہا، جو قیامِ پاکستان کے وقت تھا۔ اب پاکستان میں سندھی، مہاجر، بہاری، پنجابی، سرائیکی، پٹھان، افغانی ، برمی، بنگالی اور دیگر قومیتوں کے لوگ مستقل طور پر آباد ہیں۔ پاکستان ایک کثیر الثقافت معاشرہ بن چکا ہے۔
اور کثیر الثقافت معاشرے میں عوامی رابطے اور کاروبار ِ مملکت چلانے کے لئے ایک قومی زبان کی ضرورت پڑتی ہے ، جو کہ اردو زبان کی شکل میں رائج ہے۔
اردو زبان کی ترقّی اور ترویج کی رفتار تیز تر تو نہیں ہے، مگر کسی حد تک اطمینان بخش ضرور ہے۔ اردو زبان میں قومی ادب کی مسلسل تخلیق ہورہی ہے، نصاب کی کتابیں اردو زبان میں مرتّب ہورہی ہیں۔ دوسری ترقّی یافتہ زبانوں سے ، سائنس اور ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ، سوشل سائنس ، معاشیات، بزنس منیجمنٹ، لاء اور میڈیسن کی کتابوں کے اردو میں تراجم ہورہے ہیں۔
علاقائی زبانوں میں ادب تخلیق ہورہا ہے، علاقائی زبانوں کے ادب کے اردو تراجم ہورہے ہیں۔ مگر احساسِ کمتری کے مریض کچھ خودساختہ دانشوروں کو شاید پاکستان کی سماجی ترقّی پسند نہیں آرہی اور ایک بار پھر عاقبت نا اندیش قسم کے ” نادانشووروں” نے اردو کے قومی زبان ہونے کو المیہ اور پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ اردو داں طبقے اور اردو زبان کو قرار دینے کی مذموم مہم شروع کردی ہے۔
ان انتشار پسندوں کی نسلی منافرت اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ اردو زبان پر تبرّا بھیجنے والے یہ “نا دانشور ” بھی اپنی کتابیں ،علاقائی زبانوں میں تحریر کرنے کی بجائے اردو میں لکھ کر چھپواتے ہیں اور اپنی مادری زبان کو فروغ دینے کی بجائے ایسی زبان کو کوستے رہتے ہیں، جو پورے برِّ صغیر میں سینکڑوں سالوں سے بولی جاتی ہے۔
تقسیم سے پہلے برِّ صغیر میں ہندوستانی زبان بولی جاتی تھی ، جو آج بھی انڈین اور پاکستانی سنیما یعنی پبلک کی کی مقبول زبان ہے۔ تقسیم کے بعد انڈیا میں یہ زبان ہندی اور پاکستان میں اردو کے نام سے رائج ہوگئی، دونوں زبانوں کے رسم الخط اور حروفِ تہجی مختلف ضرور ہیں، مگر فونکس اور ساؤنڈ کے اعتبار سے دونوں زبانیں ایک ہی ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کا تعلّق انڈس سولائزیشن سے ہے اور انڈس سولائزیشن کا دائرہ کار پورے برِّ صغیر پر پھیلا ہوا ہے ۔
انڈس ویلی اتر پردیش سے شروع ہو کہ ہریانہ مشرقی پنجاب ، پاکستانی مغربی پنجاب ، سندھ ، بلوچستان افغانستان ایران اور بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس پورے خطّے میں ایک ہی نسل کی مختلف شاخیں آباد ہیں۔ جس کے رسم و رواج اور بودو باش میں فرق ضرور ہے، مگر سب کا تعلّق انڈس سولائزیشن سے ہے۔ ۔ آریا ، دراوڑ، ہڑپّہ ، موہنجو داڑو اس ہی تہذیب کی نشانیاں ہیں، دریائے راوی، ستلج ، بیاس، چناب و جہلم اور دریائے سندھ آسمان سے نہیں اترے۔
ا ن سب کا منبع بھی ہمالیہ کی چوٹیاں اور کشمیر کے پہاڑ ہیں اور دریائے گنگا اور جمنا بھی ہمالیہ کی چوٹیوں سے ہی نکلتے ہیں۔ تقسیم کے بعد یوپی اور سی پی سے آنے والے مہاجر(اردو داں طبقہ) کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق نہیں ہیں ، اس ہی انڈس سولائزیشن کا حصّہ ہیں۔ جہاں سے پاکستان کی دوسری قومیتیں اپنا تعلّق ثابت کرتی ہیں۔
سمجھداری کا تقاضہ ہے کہ ملک اور قوم کی ترقّی کے لئے طعن و تشنیع سے پرہیز کرکے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے، اور ایک دوسرے کی عزّت کی جائے، کوئی کسی کو کم تر قرار دے کریا ایک دوسرے پر فتح حاصل کرکے نہیں رہِ سکتا۔ اردو بولنے والے خواہ مخواہ کی تہذیبی برتری کا پرچار نہ کریں، اور دیگر زبانیں بولنے والے مہاجروں کو پناہ گیر اور ننگے بھوکے آنے کی طعنہ زنی نہ کریں تو بہتر ہوگا۔
انگریزی زبان کے بطور بین الاقوامی اور ماخذ علم زبان کی حیثیت حاصل ہونے کے بعد، اور پاک چائنا راہداری کھل جانے کے بعد چائنا سے روابط بڑھنے کے بعد چینی زبان کے پاکستان میں رواج پانے کے بعد سندھی، اردو ، پنجابی، پشتو، بلوچی، سب زبانوں کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ اردو سمیت پاکستان کی دیگر زبانیں اپنی پسماندگی دور کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ان سب زبانوں میں جدید سائنس ، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، اقتصادیات اور فلسفہ کو اپنی فنکشنل معذوری کے سبب جدید ترین علم کی تشریح کرنے ، منتقل کرنے ، بیان کرنے اور تخلیق کرنے کی زیادہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اگلے پچاس سالوں میں ہمیں انسانی اور اقتصادی ترقّی کے لئے انگلش ، چائینیز اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کا سہارا لینا ہوگا۔
لہذا زبان اور کلچر کو اہمیت دینے کی بجائے پسماندگی دور کرنے اورمعیشت بہتر بنانے پر توجّہ دی جائے تو بہتر ہے۔ آنے والے وقت میں سندھی ، اردو، پنجابی ، سرائیکی، پشتو، بلوچی سب زبانوں کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔صرف وہی زبان چلے گی، جس میں معیشت چلے گی۔
♦
One Comment