بیرسٹر حمید باشانی
ہمارے مصائب کی وجہ کیا ہے ؟ اس سوال کے مختلف جواب ہیں۔ ایک جواب یہ ہے کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ وسائل کی کمی ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ دولت کی نا منصفانہ تقسیم ہے۔ چوتھاجواب حکومتی اور ریاستی اہل کاروں کی نا اہلی ہے۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ کرپشن یعنی بد عنوانی اور بد دیانتی ہے۔
جوابات کا ایک سلسلہ ہے، اگر میں یہ لکھتا چلاجاوں تو یہ سلسہ بہت طویل ہو سکتاہے۔ ہر کوئی اپنی سوچ اور نظرئیے کے مطابق اس سوال کا الگ الگ جواب دیتا ہے۔
ہمارے مصائب کا حل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب بھی ان جوابات کے اندر موجود ہے۔ یہ اگر گناہ کی سزا ہے ، تو ترک گناہ ہی حل ہے۔ اگر وسائل کی کمی وجہ ہے تو وسائل میں اضافے کا کوئی طریقہ نکالناہوگا۔ دولت کی نا منصفانہ تقسیم اگر وجہ ٹھہری، تو وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی مئسلے کا حل بھی ٹھہرے گی۔
گویا مسائل کے ٹھیک ٹھیک حل کے لیے مسائل کی اصل وجہ جاننا ضروری ہے۔ لیکن مسائل کی اصل وجہ اور ان کا درست حل جاننا ہی کافی نہیں۔ مسائل کے حل کے لیے سب سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں کے پاس مسائل کے حل کا اختیار ہے، وہ ناصرف مسائل کی وجہ اورحل جانتے ہوں، بلکہ وہ ان مسائل کے حل کا مضبوط عزم بھی رکھتے ہوں۔
ایک فعال معاشرے میں دانشوروں کو انسانی مصائب کا ادراک ہوتا ہے۔ انہیں اس کا حل بھی معلوم ہوتا ہے۔ وہ نجات کا راستہ بھی جانتے ہوتے ہیں۔ وہ اس پر لکھتے اور بولتے ہیں۔ اپنا علم پھیلاتے ہیں، عام کرتے ہیں۔ اس علم یا گیان کی روشنی میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور ترتیب دیتی ہیں۔ عوام کو واضح اور عوامی الفاظ میں بتاتی ہیں کہ اپ کے مسائل کی وجہ کیا ہے، اور ہمارے نزدیک اس کا حل کیا ہے۔
ایک جمہوری معاشرے میں عوام سیاسی جماعتوں کے منشور اور نظریات کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک کون سی سیاسی جماعت ان کے مسائل پر درست موقف رکھتی ہے، اور وہ اس جماعت کو اپنا ووٹ دیکر اس بات کا اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنے منشور کی روشنی میں ان کے مصائب کا مداوا کرے۔
مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ، ایسا ایک کلی طور پر جمہوری اور فعال سماج میں ہی ممکن ہے۔ جو سماج جمہوری اور فعال نہیں ہے، اس کا منظر نامہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ ایک ٹوٹا ہوا، بکھرا، پریشان حال، تضادات کا شکار، بھوک ، ننگ اور غربت کا مارا ہوا سماج ہے۔ ایسے سماج میں دانشوروں کے ادراک و گیان میں کجروری اور بگاڑ ہوتا ہے۔ تعصب و تنگ نظری ہوتی ہے۔ ابہام اور الجھاوہوتا ہے۔
اگر دانشوروں کا گیان درست بھی ہو، تو سیاسی جماعتیں ان سے کوئی رہنمائی نہیں لیتی۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اور گروہ تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہیں۔ وہ دانشور صرف ایسے شخص کو مانتی ہیں، جو ان کی پارٹی کا کارکن ہے۔ جو ان کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔ ان کے رہنما کو تاریخ کی عظیم ہستی قرار دیتا ہے۔ جو دانشور ان کی صفوں سے باہر ہے، یا ان کے تعصب سے بالاہے، وہ خواہ کتنی درست بات ہی کیوں نہ کر رہا ہو پارٹی اس سے کوئی اثر نہیں لے گی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور کسی گہری تحقیق، اعدادو شمار، عرق ریزی اور سوچ و بچار کے نتیجے میں نہیں بناتیں۔ ہمارے ہاں انتخابی منشور تعصب، جزباتیت پر مبنی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جن میں سطحی قسم کے جذباتی نعروں کے ذریعے عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر ووٹ اینٹھنے کا سامان ہوتا ہے۔
اکثر اوقات نا قابل عمل دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں، عوام کو ایسے جھوٹے خواب دیھا ئے جاتے ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اچھا منشور بنا بھی لے تو ہمارے ہاں ابھی تک منشور کی بنیاد پر رائے سازی اور ووٹ دینے کا کلچر نہیں ہے۔ مغرب کی طرح پارٹی رہنماوں کے درمیان انتخابی مباحثوں کا رواج نہیں ہے۔ دلیل اور منطق کے استعمال کی عادت نہیں ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں عوامی ووٹ کے فیصلے بھی اکثر تعصب، جہالت، گمراہی یا لاعلمی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یا اس ساز باز اور جوڑ توڑ کا نتیجہ ہوتے ہیں، جو اکثرجماعتیں ووٹ لینے کے لیے کرتی ہیں۔ جو ووٹر ان ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہو اسے مال و دولت، برادری، قبیلے اور دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرکہ جیتاجاتا ہے
شعوری بددیانتی ہمار ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا روگ ہے ، جس میں ہم میں سے اکثر مبتلا نظر آتے ہیں۔ صرف ہمارے سیاست دان ہی نہیں، ہمارے شاعر، ہمارے ادیب اور ہمارے دانشور شعوری بددیانتی کو ایک عام سی چیز بلکہ قابل قبول قدر سمجھتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کے خطاب، ٹیلی ویثزن کے مباحثے، اخباری کالم، ہماری اس افسوسناک صورت حال کے عکاس ہیں۔ ہم جو کہنا چاہتے ہیں، وہ کہتے نہیں، یہ شعوری بددیانتی ہے۔ ہم جو نہیں کہنا چاہتے ، وہ کہتے ہیں، یہ بھی شعوری بددیانتی ہے۔
کبھی کبھی ہم اس شعوری بد دیانتی پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے ہمارا کوئی خوف ہوتا ہے، کوئی لالچ ہوتی ہے۔ ہم مجبور ہوتے ہیں، ہم بے بس ہوتے ہیں۔ مگر بسا اوقات ہماری شعوری بددیانتی ارادی اور اختیاری ہوتی ہے۔ ہم جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ اس میں دشمن ملکوں کو پلک جھپکنے میں نیست و نابود کرنے کی بات ہو، یا اقتدار ملنے کی صورت میں اپنے ملک کو جنت بنانے کے دعوے ہوں۔
بعض معاملات اور مسائل پر ہم گزشتہ ستر سال سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ اب اس جھوٹ کو ہم نے حال ہی میں بیانیہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ ہم جھوٹ کو بیانیہ کہتے ہیں۔ جھوٹے وعدوں کو نیک خواہشات اور عزم کا نام دیتے ہیں۔ اس طرح ہم جو عوام پر حکومت کرتے ہیں، وہ ان کی مرضی اور منظوری سے نہیں کرتے۔ یہ ہم دھوکے اور فریب سے کرتے ہیں۔ عوام سے جھوٹ بول کر ان سے ووٹ لینا فریب ہے۔ دھوکہ ہے۔ یہ ان کا ووٹ چرانے اس پر ڈاکہ ڈالنے والی بات ہے۔ مگر ہم اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔
چونکہ ہماری نظر منزل پر ہوتی ہے۔ راستے پر نہیں۔ مقصد پر ہوتی ہے۔ زرائع پر نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد نیک ہے۔ ہم اقتدار کی منزل پا کر عوام کے کام آنا چاہتے ہیں۔ یہ سب عوام کی بھلائی کے لیے ہے۔ اس میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ اس لیے اگر ہم کوئی جھوٹ بول رہے ہیں، یا جوڑتوڑ کے زریعے عوام کی رائے پر غلط طریقے سے اثر اندوز ہو رہے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس میں کوئی برائی نہیں لگتی۔
مگر ایسا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم عوام کی مرضی کے بغیر ان پر حکومت کر رہے ہیں۔ اور ایسا کرنا درست نہیں۔ یہ جمہوریت کی روح کے منافی عمل ہے۔ امریکی جمہوریت کے ابتدائی دنوں میں کوئی دو سو سال پہلے ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ کوئی آدمی اتنا اچھا نہیں ہو سکتا کہ وہ دوسرے آدمی پر اس کی مرضی کے بغیر حکومت کر سکے۔
اب اس قصے میں یہ جو مرضی لفظ ہے ، یہ بنیادی ہے۔ اس کے بڑے واضح معنی ہیں۔ ایک آدمی سے اگر ڈرا دھمکا کر ووٹ لیا جائے۔ کسی سے بھلا پھسلا کر ووٹ لیا جائے۔ یا کسی کو کئی لالچ دیکر اس سے ووٹ لیا جائے، تو کیا اس طریقے سے دئیے گئے ووٹ میں ووٹر کی مرضی شامل ہے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ تو مرضی کے استعمال کے لیے ایک ماحول درکار ہے۔ خوف، دہشت، بھوک ننگ، مجبورویوں سے پاک ماحول۔ ایسا ماحول پیداکیے بغیر ایک سچا جمہوری سماج نہیں قائم کیا جا سکتا ، جس میں ایک شخص دوسرے شخص کی مکمل مرضی سے اس پر حکومت کرے۔
♦