آٹھ مارچ کو پشاور میں ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے والے افراد نے ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کے زیر اہتمام ہونے والے جلسہ عام میں شرکت ۔ شرکا کی تعداد تیس چالیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔
یہ لوگ آئینِ پاکستان کے مطابق جان، مال اور آبرو کی حفاظت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنے علاقے میں بارودی سرنگوں کی صفائی، لاپتا افراد کی بازیابی اور فوجی چیک پوسٹوں پر ذمہ دارانہ طریقہ کار اپنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ منظور پشتین کہتا ہے ہمیں سکول، کالج، ہسپتال، سڑک، کچھ مت دو لیکن پشتونوں کا جہاد کے نام پر قتل عام بند کردو۔
پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ لاپتہ ہونے والے آخری شخص کی بازیابی تک یہ تحریک جاری رہے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ نقیب محسود سمیت سینکڑوں افراد کے قاتل راؤ انور کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔۔ اس کے بعد ہزاروں پختونوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو بھی عدالت میں لایا جائے جسے ہماری ریاست نے حفاظت میں رکھا ہوا ہے۔۔ آرمی چیف پرویز شرف کو بھی عدالت لائیں گے۔۔۔ہم پختونوں پر ظلم کرنے والوں کو چھوڑیں گے نہیں اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ہم ایسی عدالت کو نہیں مانتے جس میں انصاف کا دوغلہ معیار ہو۔ہمیں پشتونوں کے قاتلوں اور ان کے رکھوالوں کی نہ صرف نشاندہی کرنی ہے بلکہ انہیں عدالت میں لانا ہے۔
پاکستانی ریاست نے جہاد کے نام پر جن دہشت گردوں کو پال رکھا ہے انہیں ختم ہونا چاہیے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے بین الاقوامی دہشت گردوں کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں 139 کا تعلق پاکستان سے ہے جن کی ریاست پشت پناہی کر رہی ہے۔پاکستان میں کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔
منظور پشتین نے اس خلا کو پر کیا ہے جو پاکستان کی تمام قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں نے چھوڑا ہوا تھا ، جس کی بڑی وجہ وہی خوف تھا جو آج پاکستانی میڈیا چینلز کو پختون تحفظ موومنٹ کی کوریج سے روکتا ہے ۔ حتیٰ کہ جیو ٹی وی چینل نے بھی اسے کوریج نہیں دی جس کے متعلق یہ پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہ ایسٹیبلشمنٹ مخالف ہے۔
قومی میڈیا پر اس جلسہ کی بلیک آؤٹ کا آخر مطلب کیا ہے؟ ڈان، جیو، دنیا، اے آر وائی سب پر مصطفی کمال کے بیان کے ٹکر چل رہے ہیں۔ کمالیہ میں مسلم لیگ ن، لاہور میں جماعت اسلامی اور کسی اور جگہ پیپلزپارٹی کے ان جلسوں پر لائیو بیپر ہو رہے ہیں جو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے اور پشاور میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے جلسے کا بلیک آؤٹ ہے، جہاں سیاست نہیں ہو رہی بلکہ پردہ نشین مائیں اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں آہ و بکا کرتے ہوئے آئی ہیں۔
پاکستانی ریاست کو اپنے عوام پر رحم کرنا چاہیے۔ پشاور جلسے میں ہونے والی پکار سنو۔ نہیں سنو گے، تو بھگتو گے۔پختونوں کو دیوار سے لگانے والے پاکستان کے دشمن ہیں۔ میڈیا پر جاری بلیک آؤٹ مسخ شدہ میتوں کے وارثوں اور لاپتا افراد کے رشتہ داروں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ خدا کے لیے نمک پاشی بند کردو۔ مرہم لے آؤپختونخوا رو رہا ہے اور پاکستانی ریاست اور اس کا پروردہ نام نہاد آزاد میڈیا لاتعلق نظر آرہا ہے۔
پشتون تجزیہ نگار فضل ربی راہی کا کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست نے یہی سلوک بنگالیوں کے ساتھ بھی کیا تھا۔ وہاں حالات کچھ تھے اور میڈیا کچھ دکھا رہا تھا۔ جو لوگ بنگال میں فوجی آپریشن کے خلاف تھے، انھیں غدار قرار دیا جا رہا تھا۔ اب منظور پشتین کو بھی غدار اور غیرملکی ایجنڈے پر عمل پیرا سمجھا جا رہا ہے۔ اب بھی اگر پشتونوں کی بات نہیں سنی گئی، ان پر کیا جانے والا ظلم نہیں روکا گیا اور اس کی تلافی نہیں کی گئی تو نتیجہ وہی نکلے گا جو 1971ء میں نکلا تھا۔ معلوم نہیں ہمارے مقتدر ادارے کس دنیا میں رہ رہے ہیں، وہ تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار کیوں نہیں۔۔ پشتون رو رہے ہیں اور وہ لاتعلق ہیں۔۔۔اس کا انہیں بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔۔۔
lafzuna.com/News Desk