ایسٹر کے تہوار کے موقع پر کیتھولک مسیحیوں کے پیشوا پوپ فرانسس نے مطالبہ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قتل عام بند کیا جائے اور غزہ میں مزید ہلاکتیں روکتے ہوئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مصالحت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے کسی مذہبی رہنما نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے قتل عام بند کرانے پر مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے کوئی رسمی جملہ تک نہیں کہا اور نہ ہی انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے کاروبار کی مذمت کی ہے۔
آج اتوار یکم اپریل کو دنیا بھر کے کرسچین ایسٹر سنڈے منا رہے ہیں، جو مسیحی دنیا کا مقدس ترین مذہبی تہوار سمجھا جاتا ہے کیونکہ مسیحی عقیدے کے مطابق اس روز یسوع مسیح دوبارہ زندہ ہو گئے تھے۔ اس موقع پر ویٹیکن سٹی میں سینٹ پیٹرز اسکوائر کے مقام سے وہاں جمع ہزارہا اور مجموعی طور پر دنیا بھر کے قریب 1.3 بلین کیتھولک مسیحیوں سے اپنے روایتی خطاب ’شہر اور دنیا کے نام‘ کے دوران پاپائے روم نے کہا کہ آج کی دنیا میں جگہ جگہ ظلم، ناانصافی اور قتل و غارت نظر آتے ہیں، جن کے خلاف تمام انسانوں کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔
پاپائے روم نے اپنے اس خطاب میں کہا، ’’شام میں، جہاں کئی برسوں سے جنگ جاری ہے، قتل عام ابھی بند نہیں ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تباہ حال شامی باشندوں کی انسانی بنیادوں پر مدد کی جائے، ان تک امدادی سامان کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے اور ایسے سازگار حالات پیدا کیے جائیں، جن کے نتیجے میں کئی ملین شامی مہاجرین واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں‘‘۔
پوپ فرانسس نے کہا، ’’ہم دعا کرتے ہیں کہ پوری دنیا امن کے ثمرات سے مستفید ہو۔ اس میں ہمارے وہ شامی بہن بھائی بھی شامل ہیں، جنہیں مصائب، تباہی اور خونریزی کا سامنا کرتے ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ اپنے اس خطاب میں پوپ فرانسس نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں غزہ پٹی اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران کم از کم سولہ فلسطینیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے حالات انتہائی افسوسناک ہیں اور آج اس امر کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مصالحت اور قیام امن کو فروغ دیا جائے۔
اکیاسی سالہ پوپ نے ایسٹر کے موقع پر اپنے اس پیغام میں خاص طور پر ’ارض مقدس‘ کے کونے کونے تک امن اور مصالحت کے ثمرات کے پہنچ جانے کی دعا بھی مانگی۔ مسیحی عقیدے کے مطابق جس سرزمین کو ’ارض مقدس‘ کہا جاتا ہے، وہ کافی حد تک موجودہ اسرائیلی ریاست، جنوبی لبنان، مغربی اردن اور خود مختار فلسطینی علاقوں پر محیط سمجھی جاتی ہے۔
آج ایسٹر سنڈے کے روز ویٹیکن سٹی میں پوپ کے اس خطاب کے موقع پر سینٹ پیٹرز اسکوائر کو حسب روایت ان قریب 50 ہزار پھولوں اور پودوں سے سجایا گیا تھا، جو ہر سال اس مقصد کے لیے ہالینڈ کی طرف سے تحفے میں بھیجے جاتے ہیں۔ پوپ کے اس خطاب کو براہ راست سننے کے لیے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں قریب 80 ہزار مسیحی عقیدت مند موجود تھے۔
پاپائے روم نے اپنے پیغام میں جزیرہ نما کوریا پر قیام امن کی ضرورت سے لے کر یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے حل، دنیا بھر میں بے گھر افراد اور تارکین وطن کے مسائل کے خاتمے، انسانوں کی اسمگلنگ اور جدید دور میں غلامی کی ہر قسم کی مکمل روک تھام کا ذکر کرتے ہوئے تفصیلی دعا مانگی اور کہا، ’’انسانی وقار کا ہمیشہ مکمل احترام اور مشترکہ اچھائیوں کی ہمیشہ تلاش کی جانا چاہیے‘‘۔
DW/News Desk
7 Comments