پاکستان کی طاقتور فوج جسے بیرونی طور پر شدت پسند مذہبی گروہوں کی حمایت کرنے کے الزام کا سامنا رہتا ہے، اسے اب اندرونی طور پر ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ اندرونی چیلج ہے، پشتون تحفظ موومنٹ۔
چھبیس سالہ منظور پشتین ’ایک کرشماتی لیڈر‘ کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ان کی جوشیلی تقاریر کئی لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہی ہیں۔ وہ اپنے جلسوں میں ’انصاف‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے نوجوان رہنما منظور کے مطابق سینکڑوں پشتون غائب ہیں، جنہیں ان کے بقول ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کے شبے میں اٹھا لیا ہے۔
منظور پشتین کہتے ہیں کہ قبائلی علاقہ جات میں انتہا پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اور جب اس آپریشن کے ختم ہونے کے بعد لوگ گھر واپس آئے تو ان کے گھر اور کاروبار لٹ چکے تھے۔ منظور پشتین کے مطابق پشتون افراد کو اپنے ہی علاقوں میں چیک پوسٹوں پر چیکنگ کرانا پڑتی ہے جہاں ان سے اکثر ناروا سلوک بھی کیا جاتا ہے۔
پی ٹی ایم نے پاکستان کی فوج پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ کچھ عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتی ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں حملہ کرتے ہیں ۔
پشتین نے نیوز ایجنسی اے یف پی کو بتایا، ’’یہ پالیسی ہمارے لیے بہت خطرناک ہے۔‘‘ لیکن پاکستان کی فوج اس الزام کو مسترد کر چکی ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے، ’’دنیا کی کوئی فوج ان دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرے گی، جن کے خلاف اس نے پوری طاقت سے جنگ کی ہو‘‘ ۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں پاکستان کی فوج یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس تنظیم کو پاکستان کے دشمن ممالک کی حمایت حاصل ہے اور سوشل میڈیا پر اس تنظیم کے خلاف مہم دیکھی جا رہی ہے۔
اتوار کو جب لاہور میں منظور پشتین نے نعرہ لگایا، ’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘، تو اسے پاکستان کی فوج کی جانب سے ریڈ لائن عبور کرنے کے مترادف سمجھا گیا۔
پشتین کے مطابق نائن الیون کے بعد اس خطے میں شروع ہونے والی جنگ سے لے کر اب تک اس کے خاندان کے چالیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تیس افراد اغوا ہو چکے ہیں۔ اس تحریک میں شامل بہت سے دیگر افراد کا بھی کہنا ہے کہ ان کے بہت سے رشتہ دار غائب ہیں۔ پشتین کا کہنا ہے، ’’ آپ کسی کو ’گڈ طالبان‘ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ گڈ طالبان نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے ہمیں مارا ہے‘‘۔
پاکستان کی مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد پشتون افراد پر مشتمل ہے۔ سکندر اعظم کے وقت سے پشتونوں کو ان کی جنگی صلاحیتوں کے باعث سراہا جاتا ہے اور بہت سے ادوار میں عسکریت پسندوں اور افواج نے انہیں اپنی جنگوں میں استعمال بھی کیا۔
افغان اور پاکستانی طالبان دونوں میں اکثریت پشتون افراد کی ہی ہے۔ اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ایک عام پشتون شہری کو بھی ایک قدامت پسند قبائلی یا دہشت گردوں کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے۔ انہیں مبینہ طور پر شہروں میں ہراساں کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کے لیے شہری علاقوں میں کرائے پر گھر ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر منظور پشتین کی مانگیں محدود تھیں وہ 150 لاپتہ افراد کی ایک فہرست لے کر ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے لیکن ان کی تحریک نے زور تب پکڑا جب کراچی میں پشتونوں کے سوشل میڈیا اسٹار نقیب محسود کو ایک پولیس مقابلے میں ماورائے عدالت ہلاک کر دیا گیا۔ اب اس تحریک میں ہزاروں افراد شامل ہو گئے ہیں۔
DW
♥
One Comment