آصف جاوید
دنیا میں جو کچھ بھی بھوک و افلاس وغیرہ ہے ، وہ کسی وسائل کی کمی کا شاخسانہ نہیں ، بلکہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ غریبی کسی خدا کی منشاء یا قہر نہیں، بلکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور زرائع پیداوارپر بالادست طبقے کے قبضے کا نتیجہ ہے۔
معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہی طبقاتی عدم مساوات اور باہمی نفرت کو جنم دیتی ہے۔ دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔
طبقاتی تقسیم اور ذرائع پیداوار پر بالادست طبقات کے قبضے کو مستحکم کرنے اور انہیں اخلاقی جواز فراہم کرنے میں، ملّائیت اور پیشوائیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ملّائیت اور پیشوائیت بالا دست طبقے کی دست راست اور شریکِ واردات ہے۔ملّائیت اور پیشوائیت غربت کو تقدیر سمجھ کر اِس پر قناعت کرنے اور صبر و شکر سے زندگی گزارنے کواللہّ کی رضاء قرار دیتی ہے ۔
ملّائیت اور پیشوائیت کا المیہ یہ ہے کہ یہ طبقہ لوگوں کو غربت کے خاتمے، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے صبر و قناعت، اللہّ کی مرضی پر راضی بہ رضاء ہونے اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرنے جیسی خرافات، لوگوں کے ذہنوں میں ڈال کر انہیں نہ صرف اچھّی زندگی سے دور رکھنے بلکہ معاشی خوشحالی کے حصول سے دور رکھ کر انہیں نسل در نسل محتاج بنانے میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتا ہے، بلکہ اشرافیہ کو ان کی ناجائز ز یادتیوں پر جواز اور ارتکازِ دولت کو تحفظ دینے میں معاونت کا باعث بھی بنتا ہے۔
نتیجتاً معاشرے میں مذہب کے نام پر غریبوں میں غربت جیسی لعنت پر اطمینان اور سمجھوتہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ملّائیت کی طرف سے اس طرح کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے، غربت کی آزمائش ہماری پارسائی کا امتحان ہے اور اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے، سارے انعام و اکرام آخرت کی زندگی میں ہیں، دنیا تو صرف آزمائش کی جگہ ہے۔ انسان کے لئے جائز دولت بھی بے سکونی اور عدم اطمینان جیسی کیفیات پیدا کرتی ہے۔ عبادت میں خلل ڈالتی ہے ، لہذا غربت میں خوش رہنا چاہئے۔
کائنات کے گتھیاں سلجھانے والے ممتاز فلسفی ، دانشور، ماہر طبعیات اور کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی و طبعیات کے پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے اپنے ایک انٹرویو میں دنیا کو خبردار کیا تھا کہ انفرادی اور ملکی سطح پر دولت کی غیرہموار تقسیم ہمارے عہد کا سب سے خوفناک مسئلہ ہے، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اس وقت دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور انسانی لالچ پوری دنیا کو تباہ کردے گا۔دولت سے پیدا ہونے والی اجنبیت نے ہی برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر کیا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھاکہ جس طرح بیماریاں، امراض، غذائی قلت اور بڑھتی ہوئی آبادی ایک بڑا چیلنج ہے عین اسی طرح دولت کا چند ہاتھوں میں اکٹھا ہونا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ دنیا دولت کو ہموار انداز میں تقسیم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
عالمی سطح پر غربت کے خلاف کام کرنے والی تنظیم آکسفام نے ایک وسیع مطالعہ پیش کیا ہے اور دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں سے متعلق معلومات جمع کی ہیں جس کے مطابق اس وقت دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگ جنہیں ارب پتی بھی کہا جاتا ہے دنیا بھر کی دولت کے 48 فیصد کے مالک ہیں یعنی اِن کے پاس اس وقت ایک کھرب 90 ارب ڈالر موجود ہیں جب کہ آئندہ سال اس میں 600 ارب ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا جو ان کی دولت کو باقی دنیا کے 50 فیصد سے بھی بڑھا دے گا۔
دنیا میں دولت کا ارتکاز تیزی سے چند ہاتھوں میں منتقل ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے امیر اور غریب کےدرمیان دولت کی تقسیم میں فاصلہ بڑھ رہا ہے اسی لیے آکسفام نے اپنی نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگ آئندہ سال تک دنیا کی کل دولت کے 50 فیصد سے بھی زائد کے مالک بن جائیں گے یعنی یہ ایک فیصد دنیا کے بقایا 99 فیصد کی دولت پر بھاری ہوں گے۔
اِس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سماجی حرکیات، اور معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے افراد کی ضروریات کا ایک دوسرے پر انحصار ، سماجی ومعاشی فرق و ترجیحات میں تنوّع لازم و ملزوم ہیں۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک طبقہ تو غربت ، بھوک و افلاس ، جہالت اور بیماریوں کی حالت میں زندگی کی بنیادی سہولتوں، پینے کے صاف پینے، سینی ٹیشن، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار، پبلک ٹرانسپورٹ، تفریحات، شہری سہولتوں سے یکسر محروم ہو، اور دوسری طرف ایک طبقہ وسائل اور اقتدار پر قابض ہوکر دولت کے انبار اور ناجائز مراعات سے مستفید ہورہا ہو۔ قومی دولت اور وسائل کو منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے، تاکہ غریب بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے مستفید ہوسکے۔
♦