غیر مساوی جنسی تعلیم اور ناقص ازدواجی زندگیاں

آمنہ اختر

ہماری ازدواجی زندگیاں عورت کے بارے غیر انسانی مذہبی رویے اور غیر ضروی حد تک مردوں کو جنسی آزادی کی وجہ سے گل سڑ رہی ہیں ۔خواتین سے ازدواجی زندگی کے متعلق بات کی جائے تو وہ بے شرم کہہ کر بات کو ٹال دیتی ہیں اور ساتھ ہی کچھ لمحے بعد دوبارہ موضوع کو شروع کچھ اس طرح کرتی ہیں ِ کہ میرا پہلا بچہ پیدا ہوا تو مجھے کوئی درد تھا۔ پھر میرے خاوند نے مجبور کیا میرا دل نہیں کر رہا تھا گندگی کا احساس ہوتا ہے میرے جسم میں دردیں ہونے لگتی ہیں مجھے میرا خاوند جاہل گنوار لگتا ہے۔کسی جانور سے کم نہیں ۔ اسلام نے تو اس کو یہ حق نہیں دیا ۔

پھر خود ہی جواب دیتی ہے ۔کیا کریں کہ مذہبی کتاب نے بھی تو یہ کہا ہے کہ ہم عورتیں مردوں کی کھیتیاں ہیں پھر عورت خود کو زمین کی مانند اور مرد کو ایک مالک ( مالک یعنی ہر طرح کا بیج اس کے اندر بونے کی صلاحیت رکھنے والا ) کا درجہ دینے لگتی ہے۔گویا پہلے خود کو انسان کے درجے پر لاتی ہے پھر زمین یعنی ملکیت کے زمرے میں لے آتی ہے ۔

پچاس مختلف عمر کی شادی شدہ عورتوں ( پیدائش سال 1938-2018)سے لی گئی انفارمیشن کے مطابق عورت اپنے آپ کو انسان مانتی ہے جب وہ اپنے ازدواجی زندگی کے مسائل بیان کرتی ہے مگر مذہب کی روح سے وہ ملکیت اور حکم بجا لانے والی اور پرلے درجے کی مخلوق ہے جس کی قدر اس کی فرج کی پیداوار اور قابلیت پر منحصر ہے ۔

اگر ہم اپنے پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیں تو مذہب کو ہر انسانی عمل کے لئے ہدایت اور اہم جانا جاتا ہے۔ اس کے مطابق مرد کو ہی جنسی عمل یا مباشرت کی تعلیم دی جانے کی اطلاع ملتی ہے ۔عورت کو صرف سمجھایا جاتا ہے کہ پہلی رات جو مرد کہے اس کو ہی ماننا ہے عورت ہونے کے ناطے مجھے بھی شادی سے پہلے میرے جسم یا مباشرت کے بارے کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔

یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ ایک جنس کو علم دیں اور دوسری جنس کے کان میں سیسہ ڈال دیں ۔مرد اور عورت کے درمیان تکلیف اور اذیت بڑھنے لگتی ہے جب ایک انسانی جسم دوسرے انسانی جسم کی بے حرمتی کرنے لگے ۔اور ایسا ہی ہوتا ہے جب مرد اپنی مذہبی آزادی کا نعرہ لگا کر عورت کی فرج اور جسم کو اپنی مرضی سے کھانا شروع کرتا ہے ۔مذہب اور میل شاؤنزم نے مرد کو گدھ بنا دیا ہے ۔

شادی شدہ عورتیں ٹھنڈے گوشت کی طرح ان کے نیچے لیٹ تو جاتی ہیں مگر نفسیاتی طور پر کافی ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں جو وقت کے ساتھ ناکافی طبی سہولت کی شدید کمی اور مذہبی فریضہ ناں پورا کرنے کی سوچ کی وجہ سے شدید صورت اختیار کر لیتا ہے ۔جس سے عورت چڑچری اور کسی بھی کام میں کو ئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتی ۔ اس بات پر سوچا ہی نہیں جاتا کہ ماں کا نفسیاتی طور پر تندرست ہونا بچے اور اس کے کنبے کی خوش گوار زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے ۔

1938سے لیکر2018 تک کوئی ادارہ نہیں جو لڑکیوں کو شادی سے پہلے کم از کم کسی طرح کی تعلیم دے جس سے اس کو معلوم ہو کہ مرد اس سے کس طرح کے جنسی تعلق کی ڈیمانڈ کر سکتا ہے ۔یقین جانیے مسلمان مرد بھی پور ن فلمز کی طرح جنسی عمل کی ڈیمانڈ کرتا ہے ۔جس سے عورت بالکل باخبر نہیں ہوتی ۔

ردعمل کے طور پر وہ اس ازدواجی رشتے سے نفرت کرنے لگتی ہے ۔پھر خدا کی نا فرمانی کے ڈر سے اپنے مرد سے تعلق بناتی تو ہے مگر ذہنی سکون کھو بیٹھتی ہے ( مولوی بھی پور ن فلمز کی طرح ہی لفظوں میں واعظ کرتے ہیں چونکہ عورت کو مسجد میں بھی علیحدہ ہی رکھا جاتا ہے۔لہذا مولوی حضرات کی شرعی زندگی کے بارے اس کھلے واعظ سے باخبر نہیں ہو سکتی ) ۔

اگر ہم پاکستانی معاشرے میں اسلامی طریقے کے ذریعے شادی بیاہ اور جنسی عمل کا نظام رکھنا چاہتے ہیں تو کم از کم شادی کا ادارہ ہی عورت اور مرد کو برابر کی ازدواجی زندگی کی تعلیم دے نہ کہ مرد سانڈ کے تیل سے سانڈ بن جائے اور مخالف جنس کو وٹامن کی گولی بھی نصیب ناں ہو اور ناں ہی اپنے مرد کو ٹھنڈا کرنے کا علم ۔حکو

مت کو چاہیے کہ کم از کم میاں بیوی کے رشتے کو شرعی طریقے سے چلانے کےلئے دونوں جنسوں کو جنسی مباشرت کے بارے برابر کی تعلیم ،صحت اور خوش رہنے کے مواقع دے۔ورنہ مرد جڑی بوٹیوں اور جانوروں کے عضو سے بنی دوائیاں کھا کر اپنی جسمانی اور ذہنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور عورت مذہبی فریضہ ادا کرتی نفسیاتی مریض صحت مند نسل کو کوکھ میں پالنے سے قاصر ہو گی ۔

7 Comments