سندھ کے مسائل کا حل سندھی ٹوپی اور اجرک میں نہیں

آصف جاوید

سندھ کے مسائل کا حل سندھی زبان، سندھی ٹوپی، اور سندھی اجرک میں  ہر گِز نہیں ہے، بلکہ سندھ کے مسائل کا حل  سندھ کے مستقل باشندوں کے درمیان  قیامِ امن، بھائی چارے اور معاشی ترقّی کے لئے ایک نئے سوشل کنٹریکٹ  کو  ترتیب دینے پر ہے۔

سندھ کے مسائل کا حل مساوی شہری حقوق،   وسائل اور اقتدار اور  میں منصفانہ شراکت ،  ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے قیام اور دیہی سندھ و شہری سندھ کے امتیاز کو ختم کرکے پورے سندھ کے لئے یکساں نظام کے قیام پر ہے۔ سندھ کے مسائل کا حل سماجی انصاف  کی فراہمی پر ہے۔

سندھ کے مسائل کا حل جاگیر داری اور وڈیرہ سسٹم کے خاتمے ، اور  فری مارکیٹ اکانومی اینڈ سوشل ڈیموکریسی  کے قیام میں ہے۔ سندھ کے مسائل کا حل نااہلیت کے خاتمے کے لئے میرٹ سسٹم بحال کرنے پر ہے۔ سندھ کے مسائل کا حل کرپشن کے خاتمے کے لئے اہل اور ایماندار انتظامیہ  کی تقرّری پر ہے۔

سندھ ، پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جس  کی ڈیمو گرافی پاکستان بننے کے بعد  بالکل بدل چکی ہے۔ سندھ اب فرزندانِ زمین سندھیوں کی خالص دھرتی نہیں  رہاہے۔تقسیم کے بعد برِّ صغیر کا نقشہ بدل گیا،  انڈیا اور پاکستان ، موجودہ بنگلہ دیش وجود میں آگیا  ۔  پاکستان بننے کے بعد پورے ہندوستان سے مہاجرین کی کثیر تعداد سندھ کے شہروں اور دیہات میں  آکر آباد ہوگئی ۔

اکثریت شہروں میں آباد ہوئی ،   سب سے زیادہ مہاجرین کراچی میں آباد ہوئے کیونکہ کراچی پورٹ سٹی اور دارالخلافہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ کراچی  ایک صنعتی اور تجارتی شہر میں تبدیل ہوتا چلا گیا،  پورے ملک سے لوگ روزگار کمانے کراچی آکر آباد ہوتے رہے۔

اب کراچی کی ڈیمو گرافی یہ ہے کہ کراچی میں مہاجروں کے بعد دوسری بڑی اکثریت پختونوں کی ہے، اس کے بعد پنجابی،  سرائیکی، بلوچ،اندرونِ  سندھ سے آئے ہوئے سندھی، اور سمندر کے کنارے آباد مقامی کچھی، برمی، بنگالی ماہی گیروں کے علاوہ سندھ میں کشمیر اور شمالی علاقہ جات  اور افغانستان سے آئے ہوئے چالیس لاکھ کے قریب افغانی بھی    شامل ہیں۔

 ان افغانیوں کو تو اب شناختی کارڈ جاری کئے جارہے ہیں۔  اس وقت سندھ ایک  کثیر الثقافت، کثیرالاقوام ، اور کثیر الّسان صوبہ ہے۔ سندھ پر کسی ایک ثقافت کی اجارہ داری نہیں ہے، اور ایسے حالات میں کسی ایک ثقافت کی اجارہ داری  کی بات کرنا  بھی احمقانہ سوچ ہے۔ کثیر الثقافت معاشرے میں ثقافت پر زور دینے کی بجائے   معاشی ترقّی اور خوشحالی    کےحصول  کو معاشرے کی اوّلین  ترجیح قرار دیا جاتا ہے۔

 سماجی سائنسدانوں کا اس بات پر اتّفاق ہے کہ سماج میں ترقّی کے لئے معاشی ترقّی نہایت ضروری ہے۔ اور سماجی ترقّی کا راستہ معاشی ترقّی سے ہوکر گزرتا ہے۔ سماج میں خوشحالی معیشت کے فروغ سے آتی ہے، ثقافت کے فروغ سے نہیں آتی، سماج میں  ترقّی لانے کے لئے سماج کا ہر فرد اہم ہوتا ہے۔ چاہے وہ سندھی ہو یا غیر سندھی۔ معیشت میں ترقّی لانے کے لئےقدرتی وسائل کی اہمیت  کم ، انسانی سرمائے  کی اہمیت زیادہ  ہوتی ہے۔

  سندھ خوش نصیب صوبہ ہے جس میں  پورے برِّ صغیر کی تمام جفاکش اور ہنرمند قومیتوں کا اجتماع ہے۔ سندھ میں بسنے والی تمام قومیتیں عظیم انسانی سرمایہ ہیں۔ اس انسانی سرمائے کو سماجی انصاف فراہم کرکے سندھ کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔  فرزندانِ زمین سندھی ، ہوش سے کام لیں، بچکانہ ضدیں چھوڑیں  ، سندھی زبان،سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی سے سندھ کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی۔

 سندھ کی تقدیر بدلے گی تو صرف اور صرف معاشی خوشحالی سے بدلے گی۔ اور معاشی خوشحالی حاصل کرنے کے لئے فرزندانِ زمین سندھیوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ بقائے باہمی  کا اصول اپنا نا ہوگا ۔ یعنی سندھ میں مستقل طور پر بسنے والی  دوسری قوموں کی سماجی حیثیت و حقوق تسلیم کرکے انہیں بھی سندھ کا مستقل باشندہ تسلیم کرنا ہوگا ،  سندھ کے وسائل اور اقتدار میں انہیں منصفانہ شراکت دینی ہوگی۔ انہیں عزّت دینی ہوگی، اور ان کی بھی  ثقافت اور رسم و رواج کا   احترام کرنا ہوگا۔

 سندھیوں کے لئے یہ تلخ گھونٹ پینا ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ ورنہ سندھ کی ڈیموگرافی تو روز بدل ہی رہی ہے، پورے پاکستان سے لوگ روزگار کے لئے بسیں بھر بھر کر آرہے ہیں، کراچی میں روزانہ نئی نئی کچّی بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ جب تک سندھ اور پاکستان رہے گا، روزگار کے لئے لوگ کراچی کا رخ کرتے رہیں گے، اور سندھی روز بروز اپنے آپ کو اقلّیت میں  تبدیل ہوتا ہوادیکھتے رہیں گے۔

  کراچی کی وجہ سے سندھ منی پاکستان بنتا رہے گا۔سندھیوں کے لئے  کوٹہ سسٹم کی دیوار ریت  کی دیوار ثابت ہوگی۔  لہذا ضروری ہے کہ سمجھداری سے کام لے کر سندھ کے مستقل باشندوں کے درمیان سماجی انصاف پر مبنی ایک نیا سوشل کنٹریکٹ ترتیب دیا جائے ، اور عزّت و احترام سے ترقّی کا سفر جاری رکھا جائے۔ 

3 Comments