دنیا جانتی ہے کہ رہبر کبیر استاد نورمحمد ترہ کئی( 15 July 1917 150 8 October 1979) صرف سیاستدان نہیں بلکہ علم وادب کے گلشن کا ایک عہدساز ادیب بھی تھے ۔ انہوں نے پشتو علم وادب میں تنقیدی بلکہ مارکسی شعور کو فروغ دیتے ہوئے گراں قدر اور ٹھوس خدمات سرانجام دی ہیں ، وہ کم ازکم پانچ اعلیٰ ناولوں ،بتیس افسانوں اور مختلف موضوعات پر سات کتابوں کے مصنف تھے ۔
اس کے علاوہ ان کے پر مغز مقالے ، صحافتی خدمات ، مضامین ، انٹرنیشنل میڈیا سے انٹرویوز اور مختلف مواقع اور مقامات پر کی گئی تقاریر وغیرہ ابھی تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہوسکیں ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پشتو زبان کے اہل فکر وقلم نورمحمد ترہ کئی کی صد سالہ سالگرہ پر بھی ان کی تاریخی تصانیف ،باغ وبہار شخصیت اور بلند فکر وکردار پر قابل ذکر کام نہیں کرسکیں ہیں جسے مجرمانہ غفلت سے بھی تعبیر کیا جاسکتاہے۔
پشتوزبان کی علمی وادبی تنظیمیں اور اکیڈمیز رہبر کبیر کی ٹھوس ادبی خدمات کااعتراف کرنا اور ان پرنئی تحقیق کیساتھ سامنے لانا تو دور کی بات ہے مگر وہ ان کی تصانیف کو محفوظ رکھنے میں بھی اب تک ناکام رہے ہیں۔ بعض افراد آج بھی اپنا قد بڑھانے کے لئے نورمحمد ترہ کئی کا نام جوش وخروش سے استعمال کرتے ہیں لیکن ان کی ادبی وصحافتی خدمات کو محفوظ کرنے اور ان کے سیاسی افکار کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانے میں اب تک انھیں توفیق نصیب نہیں ہوئی ۔
پشتو اکیڈمیز اور سیاسی جماعتیں خلق خدا سے جڑی ہوئی خلقی قیادت کی سویں سالگرہ (Centennial Celebration)پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی یاد تازہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس فریضہ کو نظر انداز کرنے کے ان کے پاس مختلف جواز ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کا نظریاتی اختلاف اور کوئی حالات کو ناسازگارقرار دیتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ تاریخی اہمیت کے شخصیات و واقعات کو کسی بہانے سے نظرانداز کیا جائے تو کسی نہ کسی مرحلے پر اس کا احتساب لازم ہوتا ہے اور یقیناًآنے والے وقتوں میں ادبی اور سیاسی حلقوں کو اس کا جواب ہر صورت میں دینا ہوگا ۔
اس تناظر میں زیر نظر کتاب پروفیسر ڈاکٹر نسیم اچکزئی کی کتاب( Stoned to Death) کو دیکھا جائے تو پروفیسر نسیم نے ایک اہم اور منفرد تاریخی فریضہ سرانجام دیا ہے ۔ انہوں نے پشتو سے انگلش میں ترجمہ کی گئی تقریباًچارسو سے زائدصفحات پرمشتمل کتاب میں استاد نورمحمد ترہ کئی کے تمام ناولوں اور چند افسانوں کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر تحقیقی اور تخلیقی مراکز میں نورمحمد ترہ کئی کو متعارف کرایا ہے بلکہ انٹرنیشنل لٹریچر میں خوبصورت اضافہ بھی کیا ہے۔
اس کتاب کے پیش لفظ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر نسیم نے ایک لمبے عرصے میں ، غیر معمولی محنت ومشقت اور دیگر تکالیف برداشت کرنے بعد اس کتاب کو حتمی شکل دی ہے ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ان کی انفرادی اور مخلصانہ کاوش ہے اور اس میں کسی ادبی اور سیاسی تنظیم یا سرکاری ادارے کی معاونت انہیں حاصل نہیں رہی ۔
پروفسیر نسیم کی یہ کاوش قبلہ نما بھی ثابت ہوسکتی ہے ، نئی نسل کے پشتو ادیبوں اور دانشوروں بالخصوص ینگ سکالرز کی ذمہ داری ہے کہ پروفیسر نسیم کی اس انمول کاوش سے سبق حاصل کریں اور کاکاجی صنوبر حسین مومند سے لیکر سورگل تک کی خدمات اور کارناموں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں محکوم ومحروم اقوام اور طبقات تک پہنچانے اور مقبول عام بنانے میں فعال کردار ادا کریں۔
پشتو زبان وادب کی حقیقی ترویج کے حوالے سے اُستاد سورگل کے عظیم مشاہدات اور تجربات کو جانے کے لئے ضروری ہے کہ سب پروفیسر اچکزئی کی کتاب کا سنجیدہ مطالعہ کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ خود کو ترقی پسند نظریات وتعلیمات کی روشنی سے اپنے ذہنوں کو روشن کریں جن سے اپنے موقع پرست ادیبوں، سیاست مداروں اور ریسرچرز کی عدم توجہی کے باعث آج تک معاشرے کی کثیر آبادی محروم رہ گئی ہے ۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد نہ صرف نورمحمد ترہ کئی بلکہ پشتو زبان کے دیگر ترقی پسند اور روشن خیال روشن فکروں،تخلیق کاروں اور دانشوروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے ، انہیں پڑھنے ، اُجاگر کرنے اور متعلقہ تلاش وجستجو کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
♦
2 Comments