مبارک حیدر
شاید علم اور انکسار، علم اور برداشت لازم و ملزوم ہیں – کیوں؟ اس لئے کہ عالم کے تحمل سے برداشت کرنے اور سننے کا کلچر جنم لیتا ہے – انسان محبت سے سیکھتا ہے ، ڈنڈے اور تھپڑ سے نہیں۔
عالم ڈینگیں نہیں مارتا ۔کیوں ؟ اس لئے کہ ڈینگوں سے صرف ڈینگیں مارنے کا کلچر جنم لیتا ہے۔ برتری کے دعوے اور خود ستائی کے نعرے جہالت اور احساس کمتری سے آتے ہیں اور نفرتوں کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتے ۔
دعوے جہالت کے مختلف روپ ہیں ۔۔۔ ایمان والا کہتا ہے خالق کا ہونا اٹل اور آخری سچائی ہے ، تم اندھے ہو جونہیں مانتے ۔ دہریہ کہتا ہے خالق کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ اٹل اور آخری دریافت ہے ، تم اندھے ہو جو نہیں جانتے ۔
لیکن سائنس والا یعنی عالم کہتا ہے اٹل اور آخری سچائی میرے علم میں نہیں جو تھوڑا سا جانتا ہوں ، کل پرسوں وہ بھی غلط ثابت ہو سکتا ہے ۔
زید کا متوالا کہتا ہے ” لیڈر بس زید ہے، باقی سب چور ہیں ” ۔ بکر کا جیالا للکارتا ہے ” جو بکر کے سوا کسی کو مانے وہ دیس کا غدّار ہے ” ۔ مشرق و مغرب میں ایک سا ہنگامہ برپا ہے ۔ دونوں طرف کے حامی اپنے اپنے مقرر پر تالیاں بجا رہے ہیں – نتیجہ یہ ہے کہ ایک دھڑے کا فرد مر کر بھی دوسرے دھڑے میں نہیں جاتا ۔
فیس بک ایک جدید اکھاڑہ ثابت ہوا ہے جہاں گالیوں اور دعووں کا میدان لگتا ہے ۔ یہ شاید ذہنی عیاشی کا جدید ذریعہ ہے ۔ جیسے رومن امراء کی عیاشی تھی کہ غلاموں کو لڑاتے تھے ، اور ہمارے دیہاتی لوگ ریچھ کتے اور مرغوں کی لڑائی کا مزہ لیتے تھے ۔
میں عالم تو نہیں لیکن بچوں کی توتلی باتوں میں بھی معنی دیکھتا ہوں ، سوال کرنے کا عادی ہوں ، مجھے ‘شاید‘ کا لفظ اچھا لگتا ہے ، کیونکہ ادھوری سچائیوں کو اٹل کہنا سچ نہیں ۔ سو میں حیرت میں ہوں کہ تکبر اور نرگسی فخر میں لتھڑے ہوئے دعووں پر ضد کرنا کس قسم کا عالمانہ عمل ہے ۔
ہر آئے دن خود سے پوچھتا ہوں کیا نفرت ، دھڑے بندی اور دعوی بازی کے اس ماحول سے کسی فکری تحریک کا بننا ممکن ہے ؟ تو پھر اس کار بے لذّت میں کیا رکھا ہے ؟
سوچتا ہوں شاید مجھ جیسے لوگوں کے لئے خاموشی سے کتابیں پڑھنا اور پڑھ کر بھلا دینا بھیڑ میں چیخنے چلّانے سے بہتر ہو ۔ شاید عورتوں اور بچوں سے باتیں کرنا یہاں کی دنگل بحثوں سے بہتر ہو ۔
♦
3 Comments