علی احمد جان
سال 2018 ء میں تبدیلی کی منادی ہوچکی ہے ۔ ایک بار پھرانتخابات میں لوگ اپنی حق رائے دہی سے تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔ ویسے تو ہر بار تبدیلی کی نوید سنادی جاتی ہے مگر ظلمت شب کی طوالت کبھی کم نہ ہو پائی ۔ ایک نئی سحر کی امید پر رات آنکھوں میں کاٹنے کے بعد صبح پھر داغ داغ اجالا دیکھ کر لب و لہجہ پھر شاکی ہوجاتا ہے کہ یہ وہ سحر تو نہیں۔ فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل اور شب ست موج کے ساحل کے بشارت کی صدا جرس کارواں سے پھر سنائی دیتی ہے کہ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی، یوں ہی زندگی کا قافلہ رواں دواں رہتاہے۔ کئی ایک تو نئی صبح کے انتظار میں اگلے جہانوں کو کوچ کر گئے اور کئی نئے ہمسفر کارواں کا حصہ بنے، امید پر دنیا قائم ہے کہ نجات دیدہ و دل کی گھڑی کبھی تو آئے گی ۔
انتخابات کو ایک مہینہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا مگر کسی بھی بڑی جماعت نے اپنا منشور عوام کے سامنے لانے کی زحمت نہیں کی۔ منشور سامنے نہ لانا سیاسی جماعتوں کی کاہلی بھی ہوسکتی یا پھر وہ منشور کی ضرورت محسوس نہ کرتی ہوں کہ اس میڈیائی دور میں لوگوں کو ان کے پروگرام کا پہلے سے معلوم ہے۔ کسی سیاسی ایجنڈا یا منشور کے بغیر انتخابات میں حصہ لینے والی تین بڑی جماعتوں کی کامیابی سے متوقع سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں اس لئے کسی ممکنہ تبدیلی کا ان جماعتوں کے طرز عمل سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آنے والی تبدیلی کیسی ہوسکتی ہے۔
ستر کی دہائی میں ٹوٹے ملک کی شکستہ دیواروں پر امید کی عمارت تعمیر کرنے والی پیپلز پارٹی اب سندھ کے دیہاتوں میں کالا باغ ڈیم کی عفریت اور صوبے کے تقسیم کے خوف سے نجات دھندہ بن کر وہیں تک محدود و محصور ہے۔ پنجاب میں اس کا پتہ صاف ہو چکا ، خیبر پختون خواہ میں کہیں کہیں اپنے پرانے جیالوں کی بدولت نظر آجاتی ہے مگرنظریاتی ووٹ سے زیادہ اب اس کا دارومدار لین دین اور ساز باز پر ہے۔
ملک توڑنے، الحاد پھیلانے اور بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہونے کے الزامات اس پارٹی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے مگر اپنے ہی جیالوں سے لین دین نے جماعت اور کارکن کے رشتے کی تقدیس کو کاروبار میں بدل دیا جس کی وجہ سے اب لوگ اس کو تبدیلی کی جماعت نہیں بلکہ سٹیٹس کو کے استعارہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ککری گراؤنڈ، منٹو پارک، لیاقت باغ میں ہونے والے جلسوں اپنے قائد کی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے پہروں بھوکے پیاسے انتظار میں رہ کر بھی جئے بھٹو کہنے والوں کو اب بریانی اور قورمہ کی دعوت بھی جلسہ گاہ تک نہیں کھینچ پاتی ۔
پیپلز پارٹی کے ہمدرد ، کارکن اور ہمنوا مگر اس خیال میں ہیں کہ سندھ اور بلوچستان سے پکی سیٹوں کے ساتھ جنوبی پنجاب کی ممکنہ اتحادی سیٹیں اور خیبر پختونخواہ سے نظریاتی ووٹ پیپلز پارٹی کو حکومت اگر نہ دلا سکے تو کم از کم کسی مخلوط حکومت میں حصہ ضرور دلائینگے۔ اس بارے میں بھی پیپلز پارٹی کے افلاطون عوام کی حمایت اور ووٹ کی طاقت سے زیادہ محترم آصف علی زرداری کی کرامات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔
اگر پیپلز پارٹی کو کسی نہ کسی صورت میں کامیابی ملی تو ایک تبدیلی یقینی ہے کہ آئندہ پاکستان کی سیاست میں کارگزاری، عوامی جدوجہد اور ووٹ کی طاقت سے زیادہ ساز باز، سودے بازی اور لین دین کا چلن عام ہوگا ۔ جہاں آئندہ کی سیاست تبدیل ہوگی وہاں لیڈر شپ کا معیار بھی بدل جائیگا ۔ اصول پرستی، جمہوریت پسندی اور نظریات اور افکار کے بجائے معاملہ فہمی ، ہوشیاری ، اور چالاکی ہی لیڈر شپ کا معیار بن جائیگا۔
تحریک انصاف اپنے تبدیلی کےنعروں سے دھرنوں اور انتخابی سیاست تک خود بھی تبدیلی کے مراحل سے گزرتی نظر آتی ہے۔ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اپنی ماں کے نام پر پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال اپنی مدد آپ کے تحت قائم کرنے والے پاکستانی نوجوانوں کے ہیرو عمران خان نے جب ملک کے تمام مسائل کو انصاف کے عدم فراہمی میں محسوس کرتے ہوئے تحریک انصاف بنائی تو صرف وہی ان کے ساتھ تھے جو ان کے سیاسی نظریات سے زیادہ ان کی کرکٹ میں کارگزاری سے متاثر تھے۔ صرف ایک سیٹ جیت کر انتخابی سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان نے 2013 ء کے انتخابات میں ناقابل یقین حد تک کامیابی حاصل کی اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئے۔
سنہ2013ء کے انتخابات میں اپنی کارکردگی کو سیاسی جدوجہد میں ایک سنگ میل سمجھنے کے بجائے تحریک انصاف نے اس کو اپنے خلاف سازش قرار یتے ہوئے ایک احتجاجی سیاست کا آغاز کردیا اور اسلام آباد میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے لمبے عرصے کا دھرنادیا ۔ عمران خان نے یہ الزام لگایا کہ انتخابات میں ان کے خلاف دھاندلی کی گئی ہے اور لاہور میں 35نتخابی حلقوں میں دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس دھرنے کو ملک کی الیکٹرانک میڈیا نے بھر پور پذیرائی دی اور تحریک انصاف کا پیغام گھر گھر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا مگر کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔
اس دھرنے میں بہت سے سوالات بھی اٹھائے گئے کہ کیا اس میں ریاست کے دائمی اداروں اور مقتدر حلقوں کی آشیر باد شامل تھی یا یہ عمران خان کا اپنا فیصلہ تھا۔ بار بار امپائر کی انگلی اٹھانے کی امید اور انگلی اٹھانے کی دعوت نے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں اس احتجاج کو کسی اور کے اشارے کا شاخاسانہ قرار دیا۔ اس احتجاجی تحریک کے دوران جو سیاسی زبان و بیان سامنے آیا وہ بھی ملک کی سیاست میں ایک نیا باب تھا۔ کسی پر بھی جو چاہو الزام لگاؤ اور پھر آرام سے مکر جاؤ، پارلیمنٹ، آئین اور قانون کی تحقیر کرو اور پھر ایسا کرنے کو اپنا حق بھی سمجھو۔ احتجاج کے لئے تشدد اور بد کلامی کا یہ چلن اب تحریک انصاف کا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔
سنہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک بہت ہی مضبوط حریف سمجھی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب سمیت ملک میں انتخابی معرکہ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے بڑے بڑے سیاسی ناموں کی اس میں شمولیت کے بعد توبقول کسی واقف حال کے وزیر اعظم اور کابینہ کی شیروانیوں کے سلانے کا آرڈر بھی دیا جا چکا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف نے بھی کوئی سیاسی منشور تو نہیں دیا مگر انتخابات جیتنے کے بعد پہلے سو دنوں کا اپنا روڑ میپ ضرور جاری کردیا ہے جس میں داخلہ، خارجہ، دفاع، مالیات اور دیگر وفاقی حکومت کے تحت آنے والے شعبوں کا ذکر نہیں البتہ تعلیم، صحت، زراعت سمیت ان شعبہ ہائے ریاست کے بارے میں اہداف ہیں جو اٹھارویں ترمیم کے بعد پہلے ہی صوبوں کے زیر انتظام ہیں۔
تحریک انصاف کی جیت اس مفروضے کو یقین میں بدل دے گی کہ کسی بھی حکومت کو سیاسی دلیل سے زیادہ دباؤ اور احتجاج سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ سیاسی طاقت حاصل کرنے کےلئے عوامی طاقت سے زیادہ مقتدر اور دائمی سیاسی اداروں کےاعتماد پر انحصار بڑھ جائیگا۔ تحریک انصاف کی کامیابی سے ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آئیگی کہ آنے والی ہر حکومت کے خلاف احتجاج، دھرنا اور ہڑتال ہوا کرے گااور پی ٹی آئی کے اندر بھی احتجاج اور دھرنا ہی اپنی بات منوانے کا واحد راستہ ہوگا جس کی ایک جھلک ہم نے ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران دیکھی ہے۔
حسب روایت مارشل لاء کی گود میں جنم لینے والی مسلم لیگ کا نواز شریف کے نام کا لاحقہ اختیار کرنے تک کا سفر بھی تبدیلیوں سے بھر پور ہے۔ نوے کی دہائی میں جمہوریت اور آئین کے خلاف نعرے لگانے والی سیاسی جماعت کو بھی انتخابی سیاست کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو اکٹھا کرکے تیار کیا گیا تھا۔ اس جماعت کو مارشل لاء کے پنگھوڑے سے اپنےپاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے دیئے گئے سرکاری وسائل م کا حساب کتاب ابھی تک چگتا نہیں ہوا ہے۔
مسلم لیگ نواز کا اصل سیاسی سفر 1999 ء میں اس کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد شروع ہوا ہے جب اس کی قیادت کو قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا ۔ اس دوران نواز شریف کا اپنی سیاسی حریف محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کی تاریخی دستاویز پر دستخطوں کے بعد ہی اس کی وطن واپسی ممکن ہوئی جس کے بعد وہ 2013 میں ایک بار پھر سے وزیر اعظم بن پائے ، مگر اقتدار کا یہ دورانیہ بھی اختتام سے پہلے ہی موقوف کیا گیا ۔
نواز شریف کے نام سےرجسٹرڈ مسلم لیگ اس بار انتخابات میں ایک خاص بیانئے کے ساتھ حصہ لے رہی ہے جس میں وہ انتخابات کو اپنے اقتدار سے بے دخلی کے خلاف عوامی ریفرنڈم اور عوامی رائے یا ووٹ کے تقدس کی بحالی کو وہ اپنا منشور قرار دیتی ہے۔ اس جماعت کا حلقہ اثر و انتخاب وسطی اور شمالی پنجاب کا وہ علاقہ ہے جہاں سے ملک کی افسر شاہی، عدلیہ اور فوج کا بڑا حصہ بھی تعلق رکھتا ہے۔ ایک ہی حلقے میں طاقت کے مراکز کے بارے میں ڈھکے چھپے انداز میں کی جانے والی سرگوشیاں اب انتخابی نعروں میں بدل کر عوامی جذبات کی صورت میں ووٹ کی پرچی پر نظر آئینگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات میں عوامی جزبات نواز شریف کے اس بیانئے کی کس حد تک تصدیق کرتے ہیں۔
اگر تمام تر کوششوں کے باوجود نواز شریف کی مسلم لیگ جیت گئی یا اس کو عوامی اکثریت کی تائید حاصل ہوئی تو یہ ووٹوں سے منتخب کسی حکومت کا غیر جمہوری انداز میں رخصتی کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہوگا ۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ایسے اقدامات اٹھانے میں آخری حد تک جائے گی جس میں ووٹ کے تقدس کی بحالی کے نام پر نواز شریف کے لئے اقتدار کے دروازے پھر سے سے کھول دئے جا سکیں۔ نواز شریف آئندہ کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر عدلیہ اور دیگر دائمی اداروں کے حدود کا بھی تعین کرنے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف کے ایسے ہی ارادے وہ خدشات بھی ہیں جس کی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ رجسٹرڈ جماعت کو اقتدار سے باہر رکھنے کی بھر پور کوشش بھی کی جائیگی۔
سنہ 2018ء کے انتخابات کے بعد تبدیلی تو آئے گی مگر کیا وہ حقیقی تبدیلی بھی آئےگی جس کی امید لوگ ستر سالوں سے لگائے بیٹھے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ۔
♥