’’برے لوگ‘‘
میرے ایک وکیل دوست نے بتایا:’’ وکیلوں کی انکم کا ذریعہ ہوتے ہیں‘‘۔
انگریزی ادب کے مشہور ومعروف ادیب اور وکیل سے ایک صحافی نے ان کی ترقی کا راز جاننا چاہا تو انہوں نے مختصر جواب دیا:۔
’’برے لوگ‘‘
میں نے اشفاق ایڈوکیٹ کے اس نکتے پر سرکھپایا تو خلیل جبران کا کئی سال پہلے پڑھا افسانہ یاد آگیا اور یوں محسوس ہواکہ برائی کے حوالے سے ہمارا تصورحقیقت کامحض ایک پہلو روبرو لاتا ہے ایک شہری چور کوقید وبند کی سزا دلانے کا درپے ہے وکیل دفعات اور حوالہ جات تلاش کرکے اسے بچانا چاہتا ہے اسی طرح پشتون سماج میں مرد ایک چھوڑ دو اور تین شادیاں کرتا ہے۔
ہمارا دوسری کا سن کر سر چکرا جاتا ہے۔
ہمارے ادھر عورت کا بے پردہ گھومنا پھرنا معیوب سمجھا جاتا ہے یورپ میں یہی دو ٹانگوں والی مخلوق منی سگرٹ پہنے ادھر ادھر پھدکتی نظر آتی ہے ایک سپاہی کھوپڑیوں کے مینار لگادیتا ہے جتنی زیادہ لاشیں گراتا اتنا ہی سر اونچا ہوتا جاتا ہے جبکہ بندے نے کبھی مرغی بھی ذبح نہیں کی ہے ۔
برا اور برائی
کے حوالے سے ہرشخص اور قوم کا اپنا ایک پیمانہ ہے جہاں تک برے لوگوں کا تعلق ہے یہ محض وکیلوں کے ہی کام نہیں آتے بلکہ ان کے دم قدم سے کئی بندگان خدا کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک برائی اور برے کی بڑی مثال شیطان ہے جو حضرت آدم ؑ کو راندۂ درگاہ کرنے کی اپنی سازش میں کامیاب ہوا تو مذہب نے اسے ملعون ٹھہرایا مگریہی ملعون جان ملٹن کی پیراڈائز لاسٹ کا ہیرو ہے اور اسی جان ملٹن سے متاثر علامہ اقبال نے ابلیس کو بغاوت کی علامت سمجھا۔
مارک ٹوئن نے اپنا مافی الضمیردو الفاظ میں بیا ن کردیا تو جبران خلیل نے شیطان لکھ کر اسی برائی کو مذہبی پیشواؤں کی کم زوری ثابت کردیاانگریز نے1857ء کی جنگ کو بغاوت اور غدرکا نام دیامگر ہم اسے جنگ آزادی کے نام سے یاد کرتے ہیں مسلم لیگ کے میاں نواز شریف عمران خان اور طاہر القادری کی آزادی مارچ کو بے وقت کی راگنی اور یہ دو بندگان خدا حقیقی جمہوریت کی جانب دو مزید قدم قرار دینے پر بضد رہے ۔
بہر کیف، ہم ایک نتیجہ پر ضرور پہنچتے ہیں کہ ایک تصور ہمہ جہت پہلو کا حامل ہوتا ہے اور ہمارا ایک خیال پر اڑ جانا یا اسے حرف آخر قرار دینا ہمارا فیصلہ تو ہوسکتا ہے ہر ایک کا نہیں ہوتا ہے۔
یہاں ہم بھارت کی مثال بھی لیتے ہیں۔
متحدہ ہندوستان سے الگ ہوئے ہمیں68برس ہوگئے ہیں اس کے باوجود ہماری درسی کتب میں تاحال بھارت دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے یہ ہماری انتہا پسندانہ سوچ ہے یا بھارت کا خوف جو جونک کی طرح ہم سے چھپکا ہوا ہے اور اتنا عرصہ گزرنے پر بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے یا پھر ایک مخصوص طبقہ ہمیں اس مرض میں مسلسل مبتلا رکھنا چاہتا ہے ۔
ہم برائی اور اچھائی کے حوالے سے ہمیشہ دو انتہاؤں پر کھڑے رہتے ہیں اور اس کا اظہار ہم جذبہ نفرت اور جذبہ محبت میں تمام حدیں پھلانگ کرکے دیتے رہتے ہیں کل بھارت ہمار اازلی دشمن اور امریکہ ہمارا لنگوٹیا یار تھا آج دونوں کی طرف دیکھنا گوارا نہیں ہے روس تو پہلے ہی ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا گویا پاکستان اپنی اس عرصہ زندگی میں صرف اور صرف اپنے دشمنوں میں ہی اضافہ کرتا چلا گیا ہے۔
مذاہب اور عقائد کا ذکر ہوتا ہے تو اپنے کی تعریف میں تو زمین وآسمان کے قلابے ملادیتے ہیں دیگر مذاہب کا ذکر ہورہا ہو تو مذاق اڑانے سے بھی نہیں ہچکچاتے خود ایک قبر کے پاس کھڑے ہوکر اس سے اپنے بچے کے امتحان میں پاس اور بیمار کے صحت یاب ہونے کی سفارش کرتے ہیں جھاڑو بدن پر پھراتے ہیں پتھر اٹھا کر ملتے ہیں نمک زبان سے لگاتے ہیں مگر ہندوؤں پر ہنستے ہیں کہ وہ پتھر کے ایک ایسے مجسمے کے آگے ہاتھ جوڑ کر پرارتھنا کرتے ہیں جو کہ خود سے مکھی بھی اڑا نہیں سکتا ہے۔
ہمارا یہ مرغوب نعرہ ہے
بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہنود و یہود کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے اوراب صورت حال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں فرقہ واریت میں مبتلا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رودار نہیں مذاہب اور عقائد میں یہ انتہا، انتہا پسندانہ نفرت اور دشمنی ہو تو ہو مگر سیاست کی دنیا الگ ہے بلکہ اس میں کوئی حتمی دوست اور نہ ہی مدام دشمن ہوتاہے اس کی مثالیں ہمیں ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی ملتی ہیں۔
امریکہ اور چین
امریکہ اور ویت نام
طالبان ہمارے لئے سروں پر کفن باندھ کر لڑتے رہے وہ روس کے گرم پانی تک پہنچنے میں راستے کا روڑے بنے رہے تو ہمارے مامے چاچے تھے ہم نے ان کو خوش آمدید کہا سر آنکھوں پر بٹھایا پاسپورٹ اورویزے کا تکلف بھی نہیں برتا حد یہ کہ انصار مدینہ کی یادوں کو بھی تازہ کردیا روس نے افغانستان سے بستر گول کیا تو اس کا تمام کریڈت اپنے سر لے لیا اورنائن الیون کے بعد وہی سب سے برے ٹھہرے سب سے بڑے دشمن بن گئے ۔
امریکہ اور ویت نام کئی برس تک ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنے میں لگے رہے اولالذکر نے مظالم کے جو پہاڑ ڈھائے وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اس سب کے باوجود وہی امریکہ اور ویت نام اور امریکہ اور چین اب دوست ہیں چین میں شاید سب سے زیادہ سرمایہ امریکہ کا لگا ہوا ہے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جو ممالک حریف بن گئے تھے یورپ کے کئی ممالک ایک دوسرے سے لڑتے رہے تھے وہ بھی اب ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں کھیلوں کے دوستانہ مقابلے ہوتے ہیں سرحدات اور ویزے بے معنی ہوگئے ہیں اوراب ان کی کرنسی تک ایک ہے ۔
زار شاہی کا دھڑن تختہ ہوا روس سوویت یونین بن گیا جاگیرداری اور سرمایہ داری کی جگہ سوشلسٹ نظام نے لے لی وی آئی لینن سمیت تمام سوشلسٹ رہنماؤں نے سرمایہ دار ممالک کو اپنا حریف قرار دیا اور عوام کو ان کی سازشوں سے باخبر رکھنے کے لئے تلقین کرتے رہے مگر ساتھ ہی دنیا میں دو مختلف نظاموں کے ساتھ ساتھ چلنے کو بھی برا تصور نہیں کیا اوربقائے باہمی کا تصور دیا ۔
پاکستان کی فٹ بال،ہاکی یا کرکٹ ٹیم چین، جاپان، جرمنی، امریکہ، اٹلی اور برطانیہ جاتی اور مقابلہ ہوتا ہے تودونوں ٹیمیں حریف کہلاتی ہیں مگر ساتھ ہی یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں جیت ہوتی ہے یا شکست کھیل ختم ہونے پر ہاتھ اور گلے بھی ملتے ہیں ہمیں جہاں سانپ ملتا ہے یا بچھو پر نظر پڑتی ہے پتھر، لکڑی، پستول یا جوتے سے سر کچل دیتے ہیں مگر اسی سانپ کے زہر پر برطانیہ میں کئی برس تک کینسر کے علاج کے حوالے سے تجربات ہوتے رہے جبکہ ان دنوں کالے بچھو کی ڈیمانڈ اتنی بڑھ گئی ہے کہ قبائلی آبادیوں سے پکڑ پکڑ کر بیرون ممالک برآمد کئے جارہے ہیں۔
پہلے کلو ٹماٹر چوری کرتا ہوا ایک لڑکا پکڑا جاتا تو اس پر تو لعنت ہوتی اور ہاتھ کاٹنے پر زور دیا جاتا تھا مگر اب بعض جرائم پیشہ افراد سے جرائم کے خاتمے میں مدد لی جاتی ہے لاوارث قرار دے کر جسے حرامی کہا جاتا تھا مگراس وقت دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں کہ جنہوں نے فوج میں بھرتی کیا ہوا ہے اسی طرح کسی کا بچہ گود لینا ا نتہائی برا خیال کیا جاتا تھا اب ہسپتالوں میں بچے بدل یا غائب کردئیے جاتے ہیں۔
بادشاہتوں کے ادوار میں کڑی سزا دینا ہی حل سمجھا جاتا تھا جبکہ اب یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ امریکہ سمیت دیگرترقی یافتہ ممالک میں عبرت ناک سزاؤں کو خلاف انسانیت بتایا جاتا ہے وکٹر ہیوگو نے اپنے ناول سرگزشت اسیر میں اس طرف توجہ دلائی کہ قانون مجرم کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کو بھی سزا سنا دیتا ہے پاکستان میں ایک وقت تھا جب وزیراعظم، صدر اور وزراء پاک دامن اورفرشتے سمجھے جاتے تھے اور نان نفقہ کو ترسنے والے چور ، ڈاکو ، مجر م،ملک اور سماج کے دشمن کہلاتے تھے 68سالہ تاریخ نے پلٹا کھایا اب ہم سنتے ہیں کہ آصف زرداری کے سوئس بینک میں پیسہ ہے نواز شریف کے عرب ممالک میں بھی کارخانے ہیں جنرل مشرف نے امریکہ سے پیسہ لے کر ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی اس فہرست میں کئی پاک دامن اورپردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔
ہم بھارت سے علیحدہ ہوئے وہ ایک ہندو ہے ہمارا دشمن ہے ہندی اور اردو ان کی زبان ہے ہم نے موخرالذکر کو پاکستان میں کلمہ پڑھا کر اسلامی اور قومی زبان قرار دے دیا چلوبھارت دشمن سہی مگر افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی ڈانوں ڈول رہتے ہیں۔
مغرب اور یورپ سے نفرت ہماری گفتگو کا ایک حصہ ہے جس کا اظہار کئے بنا کھانا ہضم نہیں ہوتا ہے مگر آج ان ریاستوں میں پاکستان سمیت کئی اقوام کے نوجوان روزگار اور حصول تعلیم کے لئے رہائش رکھتے ہیں اور کچھ نے تو ان کی شہریت بھی اختیار کی ہوئی ہے حالانکہ کہا جاتا ہے کہ ان ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور ذلت آمیز سلوک سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک میں اس کی حکومتیں نفرت اور جنگی فضا بناکر اپنا کام چلا رہی ہیں ان میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں ان کے مابین تنازعہ کاایک سبب کشمیر بھی ہے دونوں اس پر اپنا حق جتاتے ہیں ۔
پاکستان اسے اپنی شہ رگ کہتا ہے
بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے
ان میں سے کوئی ایک بھی اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔
بھارت سے علیحدہ ہوئے لگ بھگ 69سال ہوگئے ہیں پاکستانی بچوں کو اب بھی پڑھایا جارہا ہے کہ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، تعمیرات، عبادات سب مختلف تھا انگریز نے مسلمانان ہند سے امتیازی سلوک کیا ہندو کو مسلمانوں پر فوقیت دیتا تھا جہاں تک اٹھنے بیٹھنے اور عبادات کا تعلق ہے تو دنیا میں شاید ہی ایسا کوئی ملک ہو کہ جہاں ایک ہی رنگ، نسل، قوم اور عقیدہ کے لوگ بستے ہوں متحدہ ہندوستان میں اگر ہندو اور مسلم الگ الگ مذاہب کے پیروکار تھے تو پاکستان میں بنگالی،پنجابی، پشتون، سندھی اور بلوچ ہیں ان کا اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،زبان، آداب معاشرت، روایات، رواجات، ثقافت، رنگ اور نسل حتیٰ کہ تاریخی پس منظر بھی الگ تھلگ ہیں ۔
ہماری ذات تنقید کی زد میں آتی ہے تو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگتے ہیں ہم بناتے ہیں تو حقیقت پر مبنی بتاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہی نقاد کبھی کبھار ہمیں راہ بھی دکھاتا ہے ہماری کجی کمزوریاں سامنے لے آتا ہے اور ایسے عیوب کی بھی نشان دہی کردیتا ہے جن پر ہمارا کبھی دھیان ہی نہیں گیا ہوتا ہے سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کی طرف سے مجاہدین کی بھرپور تائیدوحمایت کی گئی اور جن سیاسی شخصیات نے اس مداخلت سے منع اور روکنا چاہا تو ان کو ملک و ریاست بدخوا ہ اور برا قرار دیا گیا جبکہ بعد ازاں ان کا انتباہ مبنی بر حقیقت ثابت ہوا۔
پاکستان کے سیاق و سباق میں برے کے لئے کبھی کبھار اکثریت اور اقلیت کے تصور کا سہار ا بھی لیا جاتا ہے تو کبھی اسے مشرقی اور مغربی کا لبادہ اوڑھادیا جاتا ہے ۔
چور، راہزن،ڈکیت،اغوا کار اور قاتل ہم شہریوں کی نظر میں لاکھ برے انسان سہی مگر یہی چوری، راہزنی، ڈکیتی، اغوا اور قتل جب قومیت اور عقیدے کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے تو پھر یہ ارتکاب کرنے اور کروانے والوں سمیت ہمارے لئے بھی بری نہیں ہوتی ہے ایک قاتل کو قتل پر موت کی سزا دی جاتی ہے جبکہ ایک جنرل کے حکم پر ہزاروں انسان تہ تیغ کردئیے جاتے ہیں تو وہ فوجی افسر پھر ملک و قوم کا ہیرو کہلاتا ہے۔
ذخیرہ اندوز، گراں فروش، مضر صحت اور زائدالمیعاد اشیاء فروخت کنندہ ہماری صحت اورپیسے کے دشمن اور قابل سزاوار ہیں مگر زراعت،صحت اور پولیس افسران اور اہلکاروں کے محسن ہیں ان کے دم قدم سے ان کے گھر آباد اور علاقے میں ٹھاٹ بھاٹ ہیں۔
پانی آلودہ اور اس میں جراثیم ہوں گے اور کھانے پینے کی اشیاء مضر صحت ہوں گی تو میرا پیٹ،گلہ اور دانت خراب ہوں گے ٹی بی یا کینسر بھی ہوسکتا ہے یرقان اور شوگر کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے مگر ارباب اختیار اور ذمہ داران کے ان کے خلاف اقدامات دکھاوا ہوتا ہے۔
چنانچہ برائی اور برا کے حوالے سے ہمارے تصورات فقط وہاں ایک اور یکساں ہوتے ہیں جہاں ہمارے مفادات میں یکسانیت پائی جاتی ہو مضر صحت اشیاء کی شکایت ایک شہری کرتا ہے تو یہ دیگر شہریوں کی ترجمانی کا حق بھی ادا ہوجاتا ہے لہٰذا عوام کے نزدیک ملاؤٹ، گرانفروشی، تجاوزات، اغواکار، قاتل، چور اوردہشت گرد برے اور نہایت برے انسان ہیں البتہ ان کا یہ سمجھنا کہ یہی عناصر ملک کے حکمران طبقات،ارباب اختیار اور ذمہ داران کے لئے بھی اسی طرح برے ہوں گے خود فریبی ہی ہوسکتی ہے۔
♦