محمد حسین ھنرمل
میری عمر اس وقت تینتیس برس کو چھو رہی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، مجھے افغانستان کے بارے میں کلمہ خیر سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ عمر میں اس طالبعلم مجھ سے بڑے لوگ تو افغان وطن کی خانہ جنگی اور وہاں پر عالمی بیرونی طاقتوں کی جارحیت کے پورے چالیس سال شاہد رہے ہوں گے۔
آج کل عالمی ذرائع ابلاغ میں جب بھی اس تاریخی ملک کا ذکر آتاہے تو وہاں پر اس کے نام کے ساتھ لفظ ” جنگ زدہ کا سابقہ یا لاحقہ ضرور لگایا ہے۔بدقسمت افغانوں کی یہ تیسری نسل ہے جسے مذہب کے نام پر بیوقوف بنایا گیا اوراب پیہم بدامنی، خوف اور وحشت کی عذاب سہہ رہی ہے۔ کم و بیش دس لاکھ سے زیادہ افغانی اس وحشی اور بارودی فضاء میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئے اور سات ملین سے زیادہ افغان مہاجربن کر دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
بیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں سوویت یونین نے اس ملک کو اپنی چراگاہ بنانے کے لئے یہاں پر اپنی فوجیں اتار دیں لیکن بیل مینڈھے نہ چڑھ سکی۔ طویل خونریزی کے بعد جب اس یونین کا شیرازہ بکھر گیا تو بعد میں اکیسویں صدی کے پہلے سال امریکہ مکار کی صورت میں ایک اور بپھری ہوئی طاقت نے وہاں پر اپنی تھانیداری قائم کی غرض سے اس پر چڑھائی کردی۔
ان دو وسیع الجُثہ طاقتوں کے علاوہ ہمارے آمروں نے بھی دین اسلام کے نام پر اپنے پراکسیز رکھ کر افغانستان کو دہشتستان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نائن الیون کے بعد سترہ سال بیت گئے ہیں لیکن وہاں کی حکومت اور طالبان تا حال ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان دو اسٹیک ہولڈرز کے بیچ اگرچہ مذاکرات کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک بار آور ثابت نہیں ہوسکا ہے۔
کبھی تو ملا محمد عمر کی موت کی وجہ سے اس مذاکراتی عمل میں رخنہ ڈال دیا جاتا ہے تو کبھی ملا منصور کو نشانہ بنانے کے بعد یہ عمل سبو تاژ کیا جاتا ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ اس وقت فلسطینیوں اور کشمیریوں کی طرح افغان قوم بھی وہ قابل رحم قوم ہے جو امن کے لئے ترس رہی ہے۔پچھلے چند برسوں کے دوران تو اس جنگ میں امریکی اور اتحادی افواج کی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر ہے لیکن کلمہ گو افغان لامتناہی تعداد میں شہید ہوئے ہیں، جس کی بڑی وجہ وہاں پر بیرونی فورسز کی انتہائی قلیل تعداد میں موجود گی ہے۔افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش تو کررہی ہے لیکن کچھ قوتیں اس عمل کو سبوتارژ کر دیتی ہیں۔
جانے کیا گزرے گی شبنم پہ گُہر ہونے تک
راکھ ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
عیدالفطر کے موقع پر پہلی مرتبہ افغانوں کو سیز فائر کی صورت میں تین دن کا ایک بیش قیمت تحفہ ملاجس نے ان کی خوشیاں دیدنی تو کردیئے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ جنگ بندی بہت مختصر مدت کے لئے تھی۔ عید کے مبارک موقع پر اس جنگ بندی کا عندیہ پہلے اشرف غنی حکومت کی طرف سے دیا گیا جسے طالبان نے کھلے ذہن سے تسلیم کرتے ہوئے گزشتہ اتوار تک اس کی پاسداری کردی۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں افغان طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز نہ صرف ایک دوسرے کو کھلے دل سے برداشت کرتے نظر آئے بلکہ آپس کے معانقوں اور مصافحوں میں بھی خاصی گرم جوشی دکھائی۔ فیس بک پر عبدالہادی نام کے ایک بلاگر نے کچھ تصاویر پوسٹ کی ہیں جس میں طالبان جنگجو اور افغان ملی اردو ایک دوسرے سے بغل گیر دکھائے گئے ہیں۔
عبدالہادی لکھتا ہے کہ ”وہ اُس منظر کو زندگی بھر بھول نہیں سکے گا جب ان کے سامنے ایک طالبان جنگجو نے آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہوئے یہ کہا کہ ” آخر کب تک ہم ایک دوسرے کی گردن زنی کرتے رہیں گے، کاش ہمارے درمیان صلح ہو جائے ‘‘۔ عید کے دوسرے دن دارالخلافہ کابل میں افغانستان کے وزیرداخلہ تک نے کمپنی نامی علاقے میں طالبان جنگجووں سے مل کر مصافحہ کیا اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بھی کھینچوائیں۔
افغان سیز فائر کے ہیش ٹیگ میں ایک ویڈیو میں طالبان تحریک کا ایک جنگجو اپنی تحریک کے موجودہ امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ زندہ باد ‘‘ کا نعرہ لگاتا دکھایا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی کھڑا شہری اس سے ”اشرف غنی زندہ باد ‘‘ کا نعرہ لگوانے کا کہتا ہے۔ طالب جنگجو پہلے تو کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن کچھ دیر بعد ہنستے ہوئے ” ملا اشرف غنی زندہ باد ‘‘ کا نعرہ بلند کر دیتا ہے۔
ایک اور مقام پر سماجی کارکن مقدسہ احمدزئی نام کی ایک خاتون سماجی کارکن، تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی منانے کی خوشی میں وہاں پر موجود ایک طالبان جنگجو کو روایتی پگڑی پہناتی دکھائی گئی ہے۔ جنگ بندی کے اختتام کے بعد اتوار کی رات صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے قوم سے اپنے خطاب میں ایک طرف اس تین روزہ جنگ بندی میں توسیع کرنے کا مطالبہ کیا تو دوسری طرف طالبان کے ساتھ جامع مذاکرات کے عہد کا تجدید بھی کیا۔
لیکن بدقسمتی کی بھی کوئی حدہوتی ہے اور حال یہ ہے کہ افغانوں کی بدقسمتی اب بھی لامحدود دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ حالیہ امید افزاء اور پر امن فضا ( سیز فائر) کو توسیع دینے پر باہمی رضامندی نہیں ہوئی اور ایک مرتبہ پھر خون کی وہی ہولی کھیلنی شروع ہوگئی ہے۔
دوسری طرف طالبان اور افغان حکومت کے درمیان باہمی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش نام کی خونخوار تنظیم بھی پہلے کے مقابلے میں ا ب زیادہ منظم ہوگئی ہے۔ داعش کو کاونٹر کرنا اس وقت تک محال دکھائی دیتا ہے جب تک افغان حکومت اور طالبان ایک صفحے پر نہ آجائیں۔ اس خطے کی مستقل تھانیداری کا خواب دیکھنے والا امریکہ تو اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے جس میں جانی، مالی بلکہ مذہبی نقصان بھی مسلمان افغانوں کا ہورہا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں اگر اپنی انا نیت کو قربان کرکے افغان عوام اور اس خطے کو پرامن بنانے کی خاطراپنی انانیت کو قربان کرکے اخلاص پر مبنی اور جامع مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے باہمی رضامندی سے ایک جمہوری نظام کے لئے کوششیں شروع کردیں تو یہی جہاد اکبر بھی ہوگا اور امریکہ، بھارت اور دوسرے عیار دشمنوں سے بہترین انتقام بھی۔
اس پر فتن دور میں امت مسلمہ مزید باہمی خلفشار اور خونریزیوں کا متحمل نہیں ہوسکتی، اسی لیے تو رسالت مآب محمد صلعم نے ایسے ہی دور میں انتہائی محتاط رہنے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ خدا کرے کہ حالیہ تین روزہ جنگ بندی اگلے مرتبہ زندگی بھر کی جنگ بندی میں بدل جائے اور ہمارے شاعر پروفیسر درویش درانی کی یہ منظوم دعا قبول ہو،
چی بیا نہ تورہ پورتہ شی نہ سر پہ وینو رنگ شی
بادارہ! دغہ جنگ دی د وطن آخری جنگ شی
ترجمہ : خدا کرے کہ حالیہ جنگ اس وطن کا آخری جنگ ثابت ہو جائے، کہ آئندہ پھر کسی کو تلوار اٹھانے اور نہ ہی کسی کا سر پھوڑنے کی نوبت آجائے۔
♦