عطا الحق قاسمی اور مرحوم عباس اطہر نے نواز شریف اور بھٹو کا موازنہ کیا تھا
عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں
“جہاں تک بھٹو مرحوم کے صاحب مطالعہ ہونے کا تعلق ہے، اس میں کسی کو کوئی کلام نہیں، ان کے مقابلے میں نواز شریف کا مطالعہ واقعی محدود ہے لیکن ایک حدیث نبوی کے مطابق علم وہ ہے جو نافع ہو، جس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچ سکتا ہو، جو علم نافع نہیں، اس علم سے بزرگوں نے پناہ مانگی ہے چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے بھٹو نے قوم کو کتنا فائدہ پہنچایا اور کم پڑھے لکھے نواز شریف نے قوم کو کیا کچھ دیا؟ “۔
اس کے جواب میں شاہ جی اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں
پچھلے کافی عرصے سے بھٹو مرحوم اور نواز شریف کا موازنہ ہو رہا ہے۔۔۔
لیکن میں اس طرح کے کسی موازنے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔کیونکہ خدشہ ہے کہ استاد امام دین گجراتی کا کوئی متوالا مجھ سے یہ فرمائش نہ کر دےکہ علامہ اقبال اور استاد امام دین کا موازنہ بھی لکھوں۔۔۔
استاد مرحوم کی نایاب کتاب ” بانگ دہل” میرے پاس موجود ہے۔ابھی تک اسے پڑھنے کی سعادت سے محروم ہوں جس طرح میاں نواز شریف جیسی تاریخ ساز شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکا۔۔۔
یہ موازنہ میرے لئے سزا، سے کم نہیں ہو گا۔لیکن ہم لکھنے والوں کو تو ہر حال میں لکھنا پڑتا ہے۔ایسے کسی چیلینج کا مقابلہ کرنے کے لئے جستجو اور کچھ نہ ہو سکا تو میں قاسمی صاحب کے کالموں سے تھوڑا سا سرقہ کر کے بھی کام چلا لونگا۔۔۔
مثال کے طور پرعلامہ اقبال اور استاد کا موازنہ میں اس طرح شروع کر سکتا ہوں
جہاں تک علامہ اقبال کے صاحب علم ہونے کا تعلق ہے اس میں کسی کو کوئی کلام نہیں ان کے مقابلے میں استاد امام دین کا مطالعہ واقعی بہت محدود تھا۔لیکن حدیث نبوی کے مطابق علم وہ ہے جو نافع ہو، جس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔جو علم نافع نہیں اس علم سے بزرگوں نے پناہ مانگی ہے۔ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے علامہ اقبالؒ نے قوم کو کتنا فائدہ پہنچایا اور کم پڑھے لکھے استاد امام دین نے قوم کو کیا دیا۔۔۔۔۔“
بشکریہ: داؤد ظفر ندیم