پاکستان کی جمہوری حکومت اپنی دوسری مدت پوری کرچکی ہے اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ناصر الملک دو ماہ کے لیے بطور نگران وزیراعظم کا حلف اٹھا چکے ہیں جو 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کی نگرانی کریں گے۔ ان کا نام مشترکہ طور پر حکومت اور اپوزیشن نے تجویز کیا تھا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں جرنیلوں نے 31 سال تک براہ راست حکومت کی ہووہاں یہ عمل بہت بھلا محسوس ہوتا ہے لیکن پاکستانیوں نے دیکھا کہ یہ ایک کنٹرولڈجمہوریت ہے جس میں پاک فوج سیاست دانوں کوخارجہ امور اور نیشنل سیکیورٹی جیسے معاملات پر دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتی ۔ وہ ایک نئی کنگز پارٹی کی حمایت کررہی ہے اور پریس کو سچ بات کہنے کی سزا دی دے رہی ہے۔
جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کی حالیہ ابتداء اپریل 2016 میں ہوئی جب پانامہ پیپرز میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں نے آف شور کمپنیز کے ذریعے لندن میں لگثری فلیٹس خریدے۔ گو نواز شریف کا نام ان پیپرز میں نہیں تھا لیکن حزب مخالف کے سیاستدانوں خا ص کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو کہ فوجی قیادت کے پسندیدہ سیاست دان ہیں اس کیس کو سپریم کورٹ میں لے گئے۔
اکتوبر 2016 میں سویلین حکومت اور ملٹری ایسٹیبشلمنٹ میں اس وقت تناؤ بڑھ گیا جب نواز شریف نے خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکیورٹی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔اپریل2017 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف پانامہ پیپرز پر سے متعلق الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی۔ حیرانگی کی بات یہ ہے یہ تحقیقاتی ٹیم پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں پر مشتمل تھی۔
تین ماہ بعد سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو غلط بیانی کرنے پر نااہل قرار دے دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھاکہ وہ صادق اور امین کی شرائط پوری نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔ ان کی جگہ پارٹی کے ہی ایک وزیر شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف نچلی عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات چلنا شروع ہو گئے ۔
نواز شریف کو بخوبی علم ہے کہ پاک فوج کیسے جمہوریت چلاتی ہے کیونکہ وہ 1980 کی دہائی میں پاکستان آرمی کے پسندیدہ ترین رہنما تھے ۔ انھیں اور ان کی جماعت کو فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے پروان چڑھایا تھا۔
فوج اور نواز شریف کے درمیان تعلقات اس وقت زیادہ خراب ہوئے جب اکتوبر 2016میں پاکستان کے قابل اعتماد اخبار ڈان میں قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کی خبر شائع ہوئی جس کے مطابق نواز شریفاور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے فوجی قیادت کو خبردار کیا کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی کی ذمہ دار وہ عسکری تنظیمیں ہیں جن کی پشت پناہی پاک فوج کررہی ہے۔
نوازشریف نے جنرل راحیل کی ملازمت میں بھی توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جرنیلوں کو اس بات کا شدید غصہ تھا کہ خبر میڈیا میں کیوں لیک کی گئی۔ پاک فوج کی جانب سے کہا گیا کہ نواز شریف غیر ملکی قوتوں کو خوش کرنے کے یے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں اور مطالبہ کیا گیا کہ خبر لیک کرنے والے کا نام بتایا جائے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے وہ لوگ جو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پروردہ ہیں نے نوازشریف حکومت، ڈان کے ایڈیٹر اور کالم نگار سرل المیڈا کو مورودِ الزام ٹھہرایا۔
نوجوان فوجی افسروں کی ایک بڑی تعداد جن کے ساتھی پاک افغان بارڈر پر طالبان کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں ۔ وہ اس بیانیہ پر یقین کرتے ہیں کہ سویلین لیڈر شپ اور صحافی خراب حالات کے ذمہ دار ہیں اور فوجی قیادت پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ ان سویلین کو سبق سکھانا چاہیے۔
نواز شریف کی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ’’ڈان لیکس‘‘ کی انکوائری کروائے ۔ وفاقی وزرا ،ڈان کے ایڈیٹرظفر عباس اور کالم نگار سرل المیڈا سے پوچھ گچھ ہوئی ۔ صحافیوں نے اپنا سورس (ذریعہ) بتانے سے انکار کر دیا ۔ اس دوران نئے آرمی چیف کا اعلان ہوا اور صورتحال وقتی طور پر پرسکون ہوگئی۔
لیکن جرنیلوں کو ڈان لیکس بھولا نہیں اور نہ ہی انہوں نے نواز شریف کو معاف کیا۔ پانامہ پیپرز سے متعلق تحقیقاتی ٹیم جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار تھے نے نوا ز شریف کی رخصتی کا بندوبست کیا۔ نواز شریف کا وزرات عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے اور نااہل ہونے کے باوجود ان کی عوام میں مقبولیت بڑھی۔ انہوں نے مرکز میں شاہد خاقان عباسی اور صوبے میں اپنے بھائی شہباز شریف کے ذریعے طاقت کا استعمال جاری رکھا۔
عام انتخابات میں کوئی دو ماہ ہیں۔ ملٹری ایسٹیبشلمنٹ نے سیاسی عمل کو انجینئرڈ کرنے کے لیے نواز شریف کے خلاف ایک مہم جاری کر رکھی ہے ۔تاکہ نواز شریف کوتاریخ میں دوسرے تیسرے درجے کا سیاست دان بنایا جا سکے۔ پچھلے چند ہفتوں میں نواز لیگ کے کئی ارکان عمران خان کی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاران صحافیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی معروضی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ایک اخبار کے صحافی نے مجھے بتایاکہ انہیں مسلسل حکام کی طرف سے فون کیا جاتا ہے کہ وہ ڈیفنس قونصل کے ان اعتراضات کی رپورٹنگ نہ کرے جس میں اس کیس کی کمزوریوں پر نشاندہی کی جاتی ہے۔ خاص طور پر واجد ضیا جو کہ ایف آئی اے کے اہم عہدیدار ہیں اور شریف فیملی کے خلاف اہم گواہ ہیں۔
فوجی قیادت پشتون تحریک موومنٹ سے بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے جس کی قیادت نوجوان پشتون کر رہے ہیں۔پی ٹی ایم ابھی تک ایک پرامن تحریک ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے، ماروائے عدالت قتل کو بند کیا جائے اور ان کے ذمہ دارا ن کو سزا دی جائے، قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی کے نام پر چیک پوسٹوں پر عوام کی تذلیل بند کی جائے۔ ملٹری ایسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کو پی ٹی ایم کی کوریج سے سختی سے منع کر رکھا ہے۔
جنگ گروپ جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے نے کچھ ماہ فوج کی بالادستی کا مقابلہ کیا لیکن انٹیلی جنس اہلکاروں نے ملک کے ایک بڑے حصے میں کیبل سے ان کے چینل کو غائب کروا دیا۔ان کے چینل کی ریٹنگ کم ہوگئی اور آمدنی بھی اور ادارہ اپنے ملازمین کو تین ماہ تک تنخواہوں کی مد میں ادائیگی نہ کر سکا۔ آخر کار اس چینل کو فوجی احکامات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
اب صرف ڈیلی ڈان ہی ایسا اخبار رہ گیا ہے جسے آزاد صحافت کا ترجمان کہا جا سکتا ہے ۔ پاک فوج اس ملک کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی بھی ہے۔اس کی ملکیت میں ملک کے کئی پوش علاقوں میں ہاؤسنگ سکیمیں اور کمرشل پلازے ہیں ۔ ڈان کی ترسیل و تقسیم کو ان علاقوں میں روکا گیا جہاں یہ زیادہ پڑھا جاتاہے۔ نیو ز ایجنسی والوں کو دھمکایا گیا کہ وہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی اس اخبار کی تقسیم کو روکے۔ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی جو کہ پاک فوج کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ ہے نے سزا کے طور پر ڈان کو اشتہارات دینے بند کردئے۔
پچھلے بدھ کو ڈان کے چیف ایگزیکٹیو حمید ہارون اور صدر اے پی این ایس نے ریاستی اداروں کی طرف سے آزادی اظہار رائے پر حملوں کی مذمت کی ہے ۔ انہوں نے کہا ’’ہم آئین کے آرٹیکل 19 کے غلط استعمال میں پارٹی نہیں ہیں اور ہم ملک میں آزادی اظہار رائے کو دبانے میں بھی پارٹی نہیں‘‘۔
لیکن حمید ہارون کے اخبار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ ایک المیہ ہوگا کہ ڈان اخبار جس کی اداراتی پالیسی صحافی طے کرتے ہیں نہ کہ اس کے مالک۔ میں 2006 سے 2010 تک ڈان اخبار کا ایڈیٹر رہ چکا ہوں۔
ظفر عباس جو کہ میر ے پیش رو اور دوست بھی ہیں دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچے ہیں اور حال ہی میں انھیں قتل کی دھمکیا ں مل رہی ہیں۔ مگر وہ بغیر کسی دباؤ کے اخبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن صورتحال پریشان کن ہے۔
ایک دھاندلی زدہ اور متنازعہ الیکشن پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی عوام پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں ۔ انہیں اپنی مرضی کے نمائندے چننے کا حق ہے جس کے لیے فری اور فئیر الیکشن چاہییں اور اس کے لیے ایک آزادپریس انتہائی ضروری ہے ۔۔۔ تاکہ وہ ضروری سوالات اٹھا سکے۔
بشکریہ: نیو یارک ٹائمز