وانا واقعے کے بعد سے پی ٹی ایم کے حامیوں کا احتجاج جاری ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں نوجوان کافی دیر تک احتجاج کرتے رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں لوگوں نے زخمیوں کے لئے خون بھی عطیہ کیا۔
اتوار کو وانا جنوبی وزیرستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے حامیوں پر مقامی طالبان، جن کو امن کمیٹی کہتے ہیں، کے مسلح افراد نے حملہ کیا، جس میں پی ٹی ایم کے پچیس حامی زخمی جبکہ تین دیگر ہلاک ہوئے۔
لڑائی کے فوراً بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور علاقے میں کرفیو نافذ کیا، جو ابھی تک برقرار ہے۔ زخمیوں کو ڈی آئی خان ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر ابھی تک وانا میں ہیں۔ وانا واقعے کے بعد خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں پی ٹی ایم کے حامی رات کو سڑکوں پر نکل آئے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں نوجوان کافی دیر تک جمع رہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں لوگ ڈی آئی خان ہسپتال بھی گئے، جہاں بہت سے لوگوں نے زخمیوں کے لئے خون بھی عطیہ کیا۔
پیر کے دن سوات میں افطاری کے فوراً بعد مظاہرین جمع ہونا شروع ہوئے اور پی ٹی ایم کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔ پی ٹی ایم ’گمشدہ افراد‘ کے لئے آواز اٹھانے کا ایک پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے اور سوات میں ’گمشدہ افراد‘ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ اس لئے وہاں پی ٹی ایم کے حامیوں کی تعداد بھی نسبتاﹰ زیادہ ہے۔
فوج کے ادارہ برائے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی پیر کو پریس کانفرنس کی، جس میں خاص طور پر پی ٹی ایم کے خلاف فائرنگ کے واقعے پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ منظور پشتین اور محسن داوڑ سے ان کی ملاقات ہوئی تھی اور ان کو مسئلے کی حل کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے احتجاج کا راستہ اپنایا۔
محسن داوڑ پی ٹی ایم کے رہنما اور منظور پشتین کے رفیق ہیں۔ داؤڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آرمی کے ساتھ ملاقات میں ان کو مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، جس کا انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ پاک فوج نے وطن کارڈ کا مسئلہ حل بھی کیا لیکن دیگر مسائل حل نہیں ہوئے، اس لئے احتجاج ان کا آئینی حق ہے اور وہ اپنا آئینی حق استعمال کر رہے ہیں۔
محسن داوڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر سوشل میڈیا اکاونٹس باہر ممالک سے آپریٹ ہو رہے ہیں اور کوئی مسئلہ پیدا کر رہے ہیں تو اداروں کو چاہیے کہ وہ اس کا حل ڈھونڈ لیں۔ سوشل میڈیا پر نوجوان آج پورا دن وانا واقعے پر بحث کرتے دکھائی دیے کیونکہ پاکستانی میڈیا میں وانا واقعے کی کوریج نہ ہونے کے برابر تھی۔
سوشل میڈیا پر آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل غفور نےطالبان کی جانب سے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر فائرنگ کرنے والوں کی مذمت نہیں کی جس سے معلوم ہوتا ہے فوج ان حملہ آوروں سے ملی ہوئی ہے۔
پی ٹی ایم کے کارکن خان زمان کاکڑ نے ٹویٹ کیا کہ معلوم تاريخ ميں پشتون قوم کو پرائيوئٹ مليشاء کے ذريعے مجکوم بنانا تقريباً ساری استعماری قوتوں کا طريقہ کار رہا ہے۔ پاکستان ايک ايسی رياست ہے جس نے مسلح اور دہشت گرد تنظيموں کو “امن کميٹيوں” کے نام سے متعارف کروايا ہےاور اس کے ذريعے اپنی رٹ کو خطرناک طريقے سے ڈسٹری بیوٹ کيا ہے۔
!ایمل خٹک نے لکھا کہ شکریہ جنرل صاحب
آپ نے جس انداز میں سینکڑوں فوجیوں کے قاتلوں کا اور وانا کے معصوم شہریوں پر انکے بہیمانہ حملے کا دفاع کیا انکی ترجمانی کی قوم آپکی ان شاندار خدمات کو فراموش نہیں کرئیگی ۔ یقیناً دھشتگرد کو امن پسند اور امن پسند کو دھشتگرد قرار دینا کوئی اسان کام نہیں تھا۔ اور آپ کی فھم و فراست نے یہ مشکل کام کرکے دکھا دیا ۔آپ نے جس طرح کوئی ٹھوس ثبوت پیش کئے بغیر علمی دلائل اور منطق سے ملک کی آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنےوالی پرامن عوامی تحریک کو بیرونی سازش ثابت کرنے کی کوشش کی وہ بھی قابل داد ہے۔ہم آپ کی ان شاندار اور گران قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت سے آپ کو اعلی ترین اعزاز “احسان اللہ احسان ایوارڈ “ سے نوازنے کا مطالبہ کرتے ہے ۔
طاہر خان سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ طالبان، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں ہر گہری نظر رکھتے ہیں۔ طاہر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے خیال میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی آج کی پریس کانفرنس قبائلیوں اور خاص کر وزیرستان کے لوگوں کو مشکل سے مطمئن کر سکے گی۔ کرفیو کے بارے میں انہوں نے کہا، ’’میرا نہیں خیال کہ کرفیو اب مسئلے کا حل ہے، بندوق کے زور پر مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ قبائلی علاقوں میں لوگوں نے بہت سختیاں جھیلی ہیں، اس لئے انہیں بھی اب پشاور یا دیگر علاقوں کی طرح ڈیل کرنا ہوگا۔ کرفیو سے حالات مزید گھمبیر ہو سکتے ہیں، اچھے کبھی بھی نہیں‘‘۔
آج افطاری کے فوراً بعد وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طلباء پشاور میں اکٹھے ہونا شروع ہوئے اور چند ہی منٹوں میں یہ تعداد درجنوں تک پہنچ گئی۔ آصف خان وانا کے رہنے والے ہیں اور پشاور یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ وہ بھی اس احتجاج میں شامل تھے، ’’اب ہم آرام سے بیٹھنے والے نہیں۔ احتجاج اور پر امن احتجاج سے ہی ہم اپنا حق مانگتے رہیں گے۔ منظور پشتین نے یہ ہمیں پیغام دیا ہے کہ پرامن احتجاج سے ہم ہر کسی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہم تو محبت اور امن چاہتے ہیں اپنے علاقوں میں۔ کیا جنگیں بہت نہیں ہو چکیں؟‘‘
DW/News Desk