منیر سامی
دنیا بھر میں اعلیٰ عدالتیں عدالتی عمل پرستی Judicial Activism اور عدالتی تحدید یا Judicial Restraint کے درمیان ایک ضروری توازن کے تناؤ سے گزرتی ہیں۔ بعض اوقات یہ عمل پرستی ایک قسم کی جارحانہ عدالتی عمل پرستی Aggressive Judicial Activism کی حدوں کو چھونے لگتی ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ عالمی عدالتی اور آئینی ماہرین کسی بھی قسم کی عدالتی عمل پرستی سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں۔ بعض دانشوروں کی رائے میں عدالتی عمل پرستی بسا اوقات اعلیٰ منصفوں کی ذاتی تاویل یا رائے پر مبنی ہوتی ہے۔
ایسی صورتِ حال میں قانون اور آئین پسِ پُشت چلا جاتا ہے۔ عام طور پر عدالتی عمل پرستی کو غیر دانشورانہ اس لیے بھی قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں کسی بھی ملک کی مقننہ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔ عدالتی عمل پرستی ایسی نذیریں قائم کردیتی ہے جس کے اثرات یا نتائج دور رس حد تک نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
بعض اوقات اعلیٰ عدالتیں توہین ِ عدالت کے معاملے میں بھی ایک طرح کی جارحیت اختیار کرتی ہیں۔ ایسی جارحیت کا مقصد بادی النظر میں سوائے ملزم کی تذلیل کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان کے تناظر میں توہین ِ عدالت کے فیصلے توہینِ مذہب و رسالت کے قوانین کی طرح ملزموں کو بدترین نقصا ن پہچاتے ہیں۔ ہمیں امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا، یا یورپ میں توہین عدالت کے قوانین کی بے رحمانہ استعمال کی مثالیں نہیں ملتیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ ممالک قانون اور انصاف کے معاملے میں عام طور قابلِ تقلید جانے جاتے ہیں۔ ہماری عدالتوں کے منصف کئی بار ان ممالک ہی کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔
پاکستانی اعلیٰ عدالتیں سالہا سال سے عدالتی عمل پرستی کرتی رہی ہیں۔ کئی بار اس کو جارحانہ عدالتی عمل پرستی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان سالہا سال کی فوجی آمریتوں کا شکار رہنے کے بعد اب ایک عدالتی آمریت کا محکوم نظر آنے لگا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اعلیٰ عدالتیں قانونی اور آئینی معاملات سے تجاوز کرکے ، روز مرہ کے انتظامی معاملات بھی اپنے ہاتھوں میں لینے لگی ہیں۔ جس میں کبھی شکر کی قیمت، کبھی ٹیلی فون کی فیس ، اور کبھی پانی اور طبی سہولتوں کی فراہمی تک شامل ہیں۔
ہمیں اس قسم کی جارحیت نہ تو گمشدہ افراد کے لیئے انصاف کے معاملہ میں نظر آتی ہے، نہ کسی غاصب فوجی آمر کے خلاف سزا کے معاملے میں ، اور نہ ہی آزادی اظہار کے معاملات میں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے، اور اہلِ دانش اس سے بخوبی واقف ہیں۔
گزشتہ مہینوں اور سالوں میں کئی ایسے فیصلے کیے گئے جن میں پاکستان کے سابق وزرائے اعظم اور قانون سازوں کو عوامی نمائندگی کے لیئے نا اہل قرار دیا گیا۔ بلکہ تا حیات نا اہل قرار دیا گیا۔ان مقدمات کے فیصلے اس طرح کیئے گئے کہ ان میں انصاف سے بعید ایک طرح کا تعصب نظر آنے لگا۔
اعلیٰ عدالتوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان میں وہ منصفین بھی شامل ہوتے ہیں جو اہم معاملات میں Judicial Restraint یعنی احتیاط اور عدالتی دانش کے استعمال کو مدِ نظر بھی رکھتے ہیں اور اپنے عدالتی ساتھیوں کو بھی اس کا مشورہ دیتے ہیں ۔
اس کی ایک اہم مثال حال ہی میں پاکستانی سیاستدان شیخ رشیدؔ کی ممکنہ نااہلی کے مقدمہ ہے۔ جس میں انہیں دو کے مقابلہ میں ایک کے فیصلے پر اہل قراد دیا گیا۔ اس مقدمہ میں پاکستان کے فاضل منصف جسٹس قاضی عیسیٰ ؔنے اپنے متبادل فیصلے میں اکثریت سے انحراف کیا اور چیف جسٹس ثاقب نثار ؔ کومشورہ دیتے ہوئے سات نکات پیش کیے۔
ان میں سب سے پہلا اور اہم مشورہ یہ تھا، جو انصاف کا اہم اصول بھی ہے ، کہ ’’انصاف نہ صرف کیا جانا چاہیئے بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہیئے‘۔ ان کا مشورہ یہ بھی تھا کہ اس مقدمہ میں کئی اہم اور دور رس معاملات مضمر ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ اس مقدمہ کو سپریم کورٹ کے مکمل بنچ کو بھیجا جائے۔ تاکہ پوری فاضل عدالت کی رائے سامنے آئے اور انسانی تعصبات کا شبہ دور ہو سکے۔
انہوں نے سیاستدانوں اور شہریوں کو آئین کی شق ( (62 یعنی صادق اور امین کی شق کے تحت سپریم کورٹ کے تحت ناا ہل قرار دیا جانے پر بھی سوال اٹھایا۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ، کوئی شخص اس وقت تک صادق اور امین سمجھا جائے گا جب تک کہ کوئی عدالت اس کے صادق یا امین نہ ہونے کے بارے میں حکم جاری کرے۔ جسٹس عیسیٰؔ کا سوال یہ تھا کہ آئین کی اس شق کے تحت عدالت کوئی ذیلی عدالت ہے یا خود سپریم کورٹ ۔ اس سوال کے پس منظر میں یہ نکتہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ نظرِ ثانی یا اپیل کی عدالت ہے ، یا اسے ذیلی عدالت کی طرح بنیادی فیصلے کرنے کا استحقا ق حاصل ہے؟
اسی طرح انہوں نے یہ نکتہ بھی اٹھا یا کہ اگر آئین کی کوئی شق آئین کی اس شق سے متصادم ہو جس کے تحت سپریم کورٹ کو از خود معاملا ت میں دخل اندازی کی صوابدید یا Suo Motto استحقاق حاصل ہے تو ایسی صورت میں کیا کیاجائے۔ان کی رائے تھی کہ پاکستان میں انتخابات میں نا ہلی کا بنیادی اختیار آئین کی شق 225 کے تحت صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے، اور اس کے تحت کسی بھی نااہلی کا فیصلہ پہلے یہ کمیشن ہی کرے گا ، نا کہ سپریم کورٹ۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نااہلی کے فیصلوں کا ایک بنیادی اصول ہونا چاہیئے جس پر ساری عدلیہ متفق ہو یا مکمل عدلیہ اس اصول کا فیصلہ کرے خواہ نتیجہ اکثریتی ہو ۔ یہی وہ اہم معاملات تھے جن کے لیے انہوں نے مقدمہ سپریم کورٹ کے فُل بنچ کو بھیجنے کامشورہ انہوں نے اپنے متبادل فیصلے میں لکھا۔
حیران کُن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس نے اپنے ہی ایک ساتھی کی دانشورانہ رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ یہی وہ حقائق ہیں کہ جنہیں مبصّر جارحانہ عدالتی عمل پرستی کہہ سکتے ہیں ، اور جن میں ذاتی مخاصمت کی بُوآتی ہے۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے۔
♦