برلن کی لبرل مسجد

جرمن دارالحکومت میں قائم کی گئی ایک لبرل مسجد کی جانب عام مسلمانوں کا جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے تعمیر کرنے والی خاتون سیُران آتش کا کہنا ہے کہ انہیں مسلسل جارحیت اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔

لبرل مسجد کا نام ابنِ رُشد گوئٹے مسجد ہے۔ یہ مسجد برلن کے موابٹ نامی علاقے میں واقع ہے۔ اس مسجد کے قرب میں پروٹیسٹنٹ گرجا گھر بھی واقع ہے۔ ماہانہ بنیاد پر اس مسجد میں نماز یا اسلامی تعلیمات کے کورسز میں شرکت کرنے والوں کی تعداد 750 سے زائد ہے۔

اس مسجد کو کھولنے کا خیال ترک نژاد جرمن خاتون وکیل سیران آتش کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس مسجد کے قیام کے ایک سال میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ انہیں دھمکیوں اور انتباہوں کا سامنا رہا۔ انہوں نے ایسی مساجد کے جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آتش کے مطابق یہ مسجد عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں روحانیت اور دوستانہ اسلام کے تشخص کی علامت ہے۔

اس مسجد کا نام بارہویں صدی کے مسلم اسپین کے علاقے اندلس سے تعلق رکھنے والے لیجنڈری مسلمان مفکر و فلسفی ابن رشد اور جرمن عالم اور شاعر ژوہان وولف گانگ فان گوئٹے کے نام پر مشترکہ طور پر رکھا گیا ہے۔ مسجد کی بنیاد رکھنے والی خاتون وکیل کے مطابق ان دونوں فلسفیوں نے اسلامی تعلیمات اور فکر و نظر کی دنیا میں انتہائی مثبت خدمات سرانجام دی تھیں۔

اس کے ایک کمرے میں پنرہ کرسیاں دھری ہیں اور دو محافظ ہر وقت مسجد پہنچنے والوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ بظاہر یہ کوئی وسیع و عریض مسجد نہیں بلکہ ایک چھوٹا سا حصہ مسجد کے نام پر مختص کیا گیا ہے۔ سیران آتش اسی مسجد کے پہلو میں رہائش رکھتی ہیں۔

خاتون وکیل سیران آتش ترک شہر استنبول کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی مسجد کا قیام جون سن 2017 میں کیا۔ خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن آتش کا کہنا ہے کہ اس مسجد کے قیام کا مقصد جرمن معاشرے میں اسلام بارے پائے جانے والے مغالطوں کا ازالہ ہے اس مسجد میں قران کی تفسیر اور تشریحات عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں کی جاتی ہے۔

اس مسجد میں کوئی خاتون یا مرد امام مستقل بنیاد پر مقرر نہیں ہے۔ نماز کے مقررہ وقت پر جو شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بھی اسلامی تعلیمات پر گفتگو کر رہا ہوتا ہے، اُسی کو امامت کی دعوت دی جاتی ہے۔ خواتین و حضرات اکھٹے نماز ادا کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں۔ خواتین کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ سر پر حجاب رکھنے سے اجتناب کر سکتی ہے تا کہ وہ کسی غیر مسلم شخص کی نفرت کا نشانہ نہ بن سکیں۔

 سیران آتش کے مطابق اس مسجد کے قیام پر انہیں قدامت پسند مسلمانوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے خصوصی اسباق کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔ ان کورسز میں وہ بھی شریک ہیں اور ایک کورس میں وہ عربی زبان سیکھ رہی ہیں۔ عربی سیکھ کر وہ عرب دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ براہ راست رابطہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔

DW

Comments are closed.