ہمارے ہاں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی ،کٹھ ملائیت اور فرقہ واریت کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہوا تھا ۔ یہ بات جزوی طور پر تو یقینا درست ہے لیکن پورا سچ نہیں ہے کیونکہ سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے مذہب کا استعمال قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگیا تھا ۔نہ صرف ملاؤں اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے بلکہ بر سر اقتدار مسلم لیگ سے وابستہ مختلف سیاسی دھڑوں نے بھی ’نفاذ شریعت ‘ اور’ نفاذ اسلام ‘ کی آڑ میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسی راہ کا انتخاب کیا تھا۔
ملاؤں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی اکثریت قیام پاکستان کے خلاف تھی لیکن جونہی پاکستان قائم ہوا انھوں نے حصول اقتدار کے لئے یہاں قرون وسطی کی طرز پر خلافتی اور ’اسلامی ‘نظام کے نفاذ کی تحریک شروع کر دی تھی۔’اسلامی ‘نظام کی یہ تحریک صرف مذہبی سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں تھی خود قیام پاکستان کا کریڈٹ لینے والی برسراقتدار جماعت مسلم لیگ نے بھی ملک کو درپیش لاتعداد مسائل کو حقیقی طور پر سمجھنے اور انھیں حل کرنے کی بجائے ’نفاذ اسلام ‘ کا آسان راستہ اختیار کر لیا ۔
یہ راستہ اختیار کرنے میں نہ صرف یہ آسانی تھی کہ سادہ لوح عوام مذہب کے نام پر اپنی معاشی اور دیگر مشکلا ت اور مسائل کو پس پشت ڈالنے یا کم ازکم عارضی طور پر نظر اندار کرنے پر تیار ہوسکتے تھے بلکہ پنجاب اور اور کراچی کے حکمران طبقوں کے لئے یہ سہولت بھی تھی کہ’ نفاذ اسلام ‘کی آڑ میں پورے ملک کے وسائل پر بالا دستی قائم کی جاسکتی تھی اور بنگالی،سندھی ، بلوچی اور پختون عوام کے قومیتی حقوق کے مطالبات کو رد کیا جاسکتا تھا ۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد یہ جھوٹ تواتر سے بولا جانے لگا کہ پاکستان قرون وسطی کا ’اسلامی نظام حکومت ‘قائم کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا ۔اس نعرہ سے مفاد پرستوں کے مختلف گروہ ’ اسلامی نظام حکومت ‘کی تشریح اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو پیش نظر رکھ کر کرتے تھے۔ ملاؤں کے نزدیک اس سے مراد قرون وسطی کا دور ملوکیت ہوتا تھا جس میں ملا بطور قاضی و مفتی حکمران انتظامیہ کا ایک اہم عہدیدار ہوا کرتا تھا۔
اس کے بر عکس بر سر اقتدار مسلم لیگ کے نزدیک اس سے مراد ایک ایسا نظام تھا جس میں بظاہر مغربی جمہوریت اور قرون وسطیٰ کے خلافتی نظام کا امتزاج نظر آئے ۔ان کے نزدیک اسلامی نظام سے مراد ایک ایسا سیاسی اور معاشی نظام تھا جوعہد جدید کے سرمایہ دار انہ نظام سے ہم آہنگ ہو لیکن اس میں سرمایہ دار انہ جمہوریت کی شہری آزادیوں مفقود ہوں ۔
تحریک پاکستان کے دوران کبھی کہیں اور کسی جگہ پر نہیں کہا گیا تھا کہ اس ملک کا قیام اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ۔مسلم لیگ کی کسی بھی قرارداد خواہ وہ مارچ 1940کی قراداد ہو یا 1946میں منظور ہونے والی قرار داد دہلی میں یہ کہیں نہیں کہا گیا تھا کہ مسلم اکثریت پر مشتمل جغرافیائی خطوںکو یکجا کرکے علیحدہ ملک اس لئے تشکیل دیا جائے کہ اس میں اسلامی نظام حکومت کا نفاذ ہوسکے۔علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں بھی مجوزہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کاکوئی تصور نہیں تھا ۔ان تما م حقائق کے باوجود ملائوں اور دیگر مفاد پرست عناصر نے قیام پاکستان کے فوری بعد نفاذ اسلام کا مطالبہ شروع کر دیا تھا ۔
اگست 1947جو پاکستان معرض وجود میں آیا اس کے خدو خال سیکولر تھے یہی وجہ ہے کہ محمد علی جناح نے گورنر جنرل اور آئین ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فریایا تھا کہ آج کے بعد ہندو ،مسلمان اور مسیحیوں کے مابین ریاست کے شہری کے طور پر کوئی تفریق نہیں ہے ۔ وہ سب اس مملکت پاکستان کے برابر کے شہری ہیں ۔جہاں تک حکومت اور ریاست کا تعلق ہے اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ہاں مذہب ایک نجی معاملہ ہوگا اور پاکستان کے ہر شہری کو عقائد کی مکمل آزادی ہوگی ۔
محمد علی جناح نے اپنے اسی ویژن کے تحت پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہندو اچھوت جوگندر ناتھ منڈل کو بنا یا تھا تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اس ملک کا قانون سیکولر ہوگا ۔اگر جناح پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتے تو وہ مولانا شبیر احمد عثمانی کو وزیر قانون مقررکرتے جو قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی تھے ۔ ایک اور اہم وزارت۔۔ وزارت خارجہ انھوں نے ایک اعلانیہ احمدی سر محمد ظفراللہ کو دی تھی ۔کیا قائد اعظم قیام پاکستان کی روح سے نابلد تھے ؟کیا انھیں نظریہ پاکستان اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا علم نہیں تھا؟ ۔ بالکل نہیں ،قائد اعظم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک جدید سیکولر جمہوری ملک کے طور پر ہی اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے ۔
حسن جعفر زید ی قبل ازیں ’پاکستان کیسے بنا ‘ کے عنوان کے تحت قیام پاکستان کی تاریخ پر دس جلدیں لکھ چکے ہیں یہ اس سلسلے کی گیارہویں جلد ہے ۔زیر نظر جلد میں ان عوامل اور وجوہات کی نشاندھی کی گئی ہے جن کے باعث جناح کے ایک سیکولر اور جمہور ی ویژن کو ترک کرکے قیام پاکستان کے مخالف ملاؤں نے ’نفاذ شریعت ‘ کا نعرہ لگایا ۔ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے ان ملاؤں نے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی اور عوام کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو تخریب کی نذ ر کر دیا ۔
آج ملک کی صورت حال یہ ہے ہر فرد دوسرے سے پوچھتا ہے کہ ملک کا کیا بنے گا ۔مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک ہی کرن ہے اور وہ ہے قائد اعظم کی 11اگست 1947کی تقریر جس میں انھوں نے پاکستان کو ایک جدید جمہوری اور سیکولر ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا ۔پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت اور دہشت گردی سے محفوٖظ بنانے کی ایک ہی راہ ہے کہ ملک میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
♦