نواز شریف بمقابلہ عمران خان

عامر گمریانی

چلیں ایک موازنہ کرتے ہیں۔ عمران خان اور نواز شریف کا۔ ویسے دونوں کا موازنہ کرنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ سورج اور چراغ کا موازنہ کوئی کرے بھی تو کیسے؟ ایک منٹ چیف صاحب! گالی نہیں۔ میری کیا مجال کہ ان دونوں عالی جاؤں میں سے ایک کو چراغ دوسرے کو سورج قرار دوں۔ یہ نیک کام عاشقانِ عمران خان اور دل گرفتگانِ نواز شریف اپنی اپنی سہولت کو مدنظر رکھ کر خود ہی کر دیں تو بہتر ہوگا۔ 

ویسے نواز خان اور عمران شریف؛ ارے یہ کیا ہوا دونوں نامیوں کے اسماء گرامی کے لاحقے آپس میں گڈمڈ ہوگئے۔ معزرت چاہتا ہوں، حالانکہ اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑھنا چاہئے کہ نام میں کیا رکھا ہے، اصل چیز تو کام ہے اور ماشاءاللہ دونوں اس حوالے سے نادرِ روزگار بلکہ نابعانِ روزگار ہیں۔

اگر آپ غور کریں تو اب تک یہ دونوں کتنے ہی ناموں سے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ نواز شریف آئے تو جنرل جیلانی کا نام زبان زدِ خاص و عام ہوا۔ جنرل ضیاء کے نام کی مالا جپتے تھے۔ جنرل ضیاء کوچ کر گئے تو ان کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ پھر عورت کی حکمرانی سے ملک کو بچانے کے لئے آئی جے آئی کا نام خوشی خوشی اپنا لیا۔ جنرل مشرف کا کلہاڑا سر پر برسا تو جمہوریت کا نام اپنے نام کرلیا۔ پانامہ کا شور اٹھا تو ووٹ کا نام سامنے لے کر آئے۔ پانامہ کی بدولت ایک دن بیٹھے بیٹھے ان پر انکشاف ہوا کہ وہ تو خیر سے نظریاتی ہوگئے ہیں۔ نظریے کا نام استعمال ہونے لگا۔ قائداعظم ثانی تو ماشاءاللہ کافی پہلے ہوگئے تھے۔ نام ابھی اور بھی بہت سے ہیں۔ آگے آگے دیکھیئے ‘رکھتا’ ہے کیا۔

خان صاحب خیر سے عمران کے نام سے مشہور ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ احمد نیازی بھی ہیں۔ ویسے یہ نیازی نام شاید خان صاحب بھول گئے ہیں تب ہی تو شہباز شریف کو بار بار یاد دلانا پڑ رہا ہے۔ ان کا سب سے اچھا اور مناسب نام ہیرو ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ملک اور ملک سے باہر ایک ہیرو کی جو شہرت خان صاحب کو ملی وہ شائد ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔ دبنگ خان ان کا ایک اور نام تھا جس کی کرکٹ کی دنیا میں ان کی کپتانی کے دور میں چرچا ہوا۔ شوکت خانم ان کی زندگی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جس کے اثرات ان کی زندگی پر سب سے زیادہ ہیں۔ اسی نام سے منسوب کینسر ہسپتال ایک بیٹے کا ماں سے محبت کا ایسا شاہکار نمونہ ہے جس پر ہر بیٹا اور  ماں فخر کر سکتے ہیں۔ 

ایک اور کانوں (خان صاحب کے) میں رس گھولتا نام وزیراعظم ہے۔ یہ نام ورلڈ کپ جیتنے اور کینسر ہسپتال  بنانے کے دوران اور بعد میں ہر اس جگہ گونجا جہاں خان صاحب جلوہ افروز ہوئے۔ اسی نام کو پا لینے کے جستجو میں خان صاحب نے قوم کو انصاف، احتساب، غیرت اور میرٹ جیسے دلفریب نعرے دئے لیکن جب بات بنتی نظر نہ آئی تو خود ہی ان کا گلا دبانے کے لئے آگے بڑھے اور کمال سرعت اور ڈھٹائی سے ان کا خون کر ڈالا۔

وزیراعظم شائد واحد نام ہے جس کے لئے خان صاحب کی محبت کبھی کم نہ ہوئی۔ نوازشریف کے نام کیساتھ وزیراعظم کا نام تین دفعہ آیا اور خان صاحب نے اسی کے حصول کے لئے پاکستانی سیاست میں کمال مہارت کیساتھ چوروں کو الیکٹیبلز کا نام دیا۔ایک اور نام جو وزیراعظم بننے کی جستجو میں خان صاحب کے مخالفین نے انہیں عطا کیا وہ ہے یو ٹرن خان۔ اس نام میں مخالفین کی ذہانت سے زیادہ دخل خان صاحب کی مستقل مزاجی کا ہے۔ وہ حد درجہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے فیصلے ۱۸۰ کے زاوئے سے تبدیل کرتے رہے۔ لوگ اس کو خان صاحب کی غیر سنجیدگی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ غیر سنجیدگی کے متعلق ان کی سنجیدگی کا ثبوت ہے ۔

 ایک اور نام جو خان صاحب کا پڑا اور شہرت حاصل کی وہ ہے کپتان۔ اس نام کا شائد خان صاحب کو یہ نقصان ہوا کہ سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھ لیا اور جس طرح وہ کرکٹ کی کپتانی میں کھلاڑیوں کو بغیر کسی وجہ کے اندر باہر کرتے رہتے وہی چلن میدانِ سیاست میں بھی اپنایا، تب ہی تو ان کے پرانے ساتھی ہر وقت رونا روتے ہیں کہ تم بھول گئے ہر بات۔ خان صاحب کا ایک اور نام جس سے آج کل وہ اور ان کے حامی چھڑتے ہیں پلے بوائے تھا لیکن جانے دیں خیالوں میں  سر پر جناح کیپ شیروانی میں ملبوس اس نام سے کراہت سی آتی ہے۔ 

مردانہ وجاہت کی بات کریں تو خان صاحب کا پلڑا بھاری ہے حالانکہ میاں صاحب بھی جب خراماں خراماں چلتے ہیں تو کم ازکم اسمبلی میں بیٹھے خواتین و حضرات حسن کے شعلوں کے آگے بے بس ، اپنی کرسیوں سے بے اختیار کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل ہی دل میں میاں صاحب سے معانقے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

خان صاحب کی مردانہ وجاہت تو شرق و غرب میں قیامتیں ڈھاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ ستر سال کی عمر میں بھی برقرار ہے بلکہ کچھ ذیادہ ہی زوروں پر ہے کہ بات کتابوں اور موبائل میسیجز تک پہنچ گئی ہے۔ میاں صاحب اس معاملے میں ایسے بھی نکٹو نہیں کہ ہر چند خان صاحب کے مقابلے کی نہیں لیکن چند حسیناؤں کا نام میاں صاحب کے نامِ نامی کے ساتھ بھی آیا ہے۔ 

سیاسی طور پر اگر میاں صاحب کا قد خان صاحب سے تھوڑا زیادہ ہے تو جسمانی طور پر خان صاحب دراز قد ہیں۔ وزن کے معاملے میں البتہ میاں صاحب خان صاحب پر حاوی ہیں کہ خوش خوراک ہیں۔ خوش خوراکی کے معاملے میں دونوں پکے دیسی ہیں۔ ایک سری پائے جبکہ دوسرا دیسی مرغی پر جان دیتا ہے۔ خان صاحب کھانے میں بھی فاسٹ بالر والی تیزی دکھاتے ہیں اور چٹکی بجا کر سالم مرغی کھا جاتے ہیں۔ خان صاحب کھانے کے دوران انتہائی غیر مہزب ہو جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے برعکس خان صاحب شائد اس لئے بھی کھانا پھرتی سے کھاتے ہیں کہ سیاست کے علاوہ سوشل ورک کو بھی  وقت دینا پڑتا ہے اور کئی ایک اور شوق بھی لاحق ہیں انہیں۔ 

پر آسائش زندگی دونوں کو عزیز ہے۔ اور اس بارے کسی سمجھوتے کے قائل نہیں۔ بڑے سے بڑے نقصان کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن اپنی آسائشوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تان دونوں کی ٹوٹتی ہے جھونپڑیوں والوں کی خدمت کے دعووں پر لیکن رہتے ماشاءاللہ سینکڑوں کنال کی محلات میں۔ حیرت ہے کہ غریبوں کی بات ایسی کمال اداکاری سے کرتے ہیں کہ اہلِ نظر عش عش کر اٹھتے ہیں۔ پیسہ دونوں کی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے فرق صرف اتنا ہے کہ میاں صاحب پکے خاندانی کاروباری ہیں اور اپنی دولت کی دن دونی رات چوگنی ترقی کے قائل ہیں جبکہ خان صاحب دوسروں کی دولت کو استعمال کرنا خوب جانتے ہیں۔ اے ٹی ایم کارڈ کی جھنجٹ میں نہیں پڑتے بلکہ اے ٹی ایم مشینیں ساتھ لئے پھرتے ہیں۔  

فصاحت دونوں میں نہیں لیکن کسی سے بات کرتے ہوئے خان صاحب کو پرچیوں کی ضرورت ہو بھی تو ایسا کرنے کے حق میں نہیں۔ سیاست میں وقت کی اہمیت میاں صاحب خوب سمجھتے ہیں اور مناسب وقت پر اپنے کارڈز مہارت سے کھیلتے ہیں جبکہ خان صاحب وقت کی نزاکت کو بالکل نہیں سمجھتے اور عین وقت پر اپنی حماقتوں سے مصائب مول لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مردم شناس دونوں نہیں۔ میاں صاحب آسانی سے خوشامد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بجا اور بے جا دونوں طرح کی تحسین و توصیف کے سامنے موم کی طرح پگھل جاتے ہیں۔ خان صاحب اگر چہ خوشامد کے اتنے شایق نہیں لیکن ‘یس باس’ سننا پسند کرتے ہیں۔  ساتھ ہی ساتھ کانوں کے کچے واقع ہوئے ہیں۔ 

دونوں ساتھ کرکٹ بھی کھیلے ہوئے ہیں۔ خان صاحب الزام لگاتے ہیں کہ میاں صاحب جب کھیلتے تھے تو ایمپائر ساتھ لاتے تھے۔ نیوٹرل ایمپائرز پر میاں صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانے والے خان صاحب بالآخر انہیں کے نقشِ قدم پر چلنے لگے اور عنقریب ہونے والے الیکشن میں ایمپائرز  تو کیا گراونڈ سٹاف کو بھی اپنے ساتھ ملانے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔

موازنہ طول پکڑ رہا ہے شائد قارئین بور ہونے لگے ہیں۔ ایک بات دونوں میں اور بھی مشرک ہے اور وہ یہ کہ دونوں مثالی لیڈر نہیں۔ ملکی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوں بھی تو اس کے لئے درکار پیہم جدوجہد اور محنت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں اپنی اپنی اناووں کے اسیر ہیں اور بس ایک دوسرے کو نیچا دکھانا دونوں کی زندگی کی اولین ترجیح ہے۔ اپنے تعصبات سے اوپر اٹھنے کا حوصلہ دونوں میں نہیں۔ طاقت اور اختیار دونوں کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لئے ایک دوسرے کو گرانا دونوں کا مقصد حیات ہے کم ازکم موجودہ وقت میں۔ ان میں سے کون کامیاب ہوتا ہے اس کا پتہ کچھ دنوں بعد لگ جائے گا۔ جہاں تک عوام کی بات ہے وہ فی الحال ان دونوں کی مخالفت اور مدافعت میں تقسیم ہیں اور اسی میں شاد ہیں۔ 

Comments are closed.