امن کے لیے اسلام کی ’نئی تشریح‘ ضروری

حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کرنے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کرنے والے انڈونیشیا کے معروف عالم دین یحییٰ خلیل ثقوب نے کہا ہے کہ فی زمانہ امن کے لیے اسلام کی ’نئی تشریح‘ بہت ضروری ہے۔

یحییٰ خلیل ثقوب نہ صرف ایک سرکردہ مسلم مذہبی عالم ہیں بلکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم تنظیم کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ یہ تنظیم انڈونیشیا کی نہضة العلماء ہے، جس کے ارکان کی تعداد 60 ملین یا چھ کروڑ کے قریب ہے۔ یحییٰ خلیل ثقوب نے اسی ماہ کے اوائل میں یروشلم میں امریکی یہودی کمیٹی یا اے جے سی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک عالمی فورم میں شرکت کی تھی۔ اس فورم میں ثقوب کو خاص طور پر بین المذاہب مکالمت اور اسلام اور یہودیت کے باہمی تعلقات پر مباحثے میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

یحییٰ خلیل نے اپنے اس دورے کے دوران اسرائیل میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی تھی اور ان کے اسی دورے پر فلسطینی خود مختار علاقے غزہ پٹی پر حکمران تنظیم حماس کے علاوہ خود انڈونیشیا میں ان کے ہم وطن کئی مسلم مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی شدید تنقید کی گئی تھی۔

وزیر اعظم نیتن یاہو سے اپنی اس ملاقات کے بارے میں بعد ازاں یحییٰ خلیل نے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی سربراہ حکومت سے اپنی ملاقات کو ان تک ’امن کا پیغام پہنچانے‘ کے ایک موقع کے طور پر دیکھا تھا۔

انڈونیشیا دنیا کا سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک ہے، جس کے بہت سے دیگر مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کی طرح اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں اور جہاں کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے میں ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کی ہمدرد رہی ہے۔

اس کے علاوہ حال ہی میں انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین کافی کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ اس کی وجہ یہ اسرائیلی فیصلہ بنا تھا کہ انڈونیشی پاسپورٹ کے حامل افراد کو اسرائیل میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسرائیل نے یہ قدم اس لیے اٹھایا تھا کہ اس سے قبل جکارتہ میں ملکی حکومت نے غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی دستوں کی فلسطینیوں کے خلاف ہلاکت خیز کارروائیوں کے باعث احتجا جاً اسرائیلی شہریوں کو انڈونیشیا میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اس پس منظر میں یحییٰ خلیل ثقوب نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں اب کہا ہے کہ انڈونیشیا اور انڈونیشی مسلمانوں کی تنظیم نہضة العلماء کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں امن کو ترویج دی جائے۔ ثقوب کے مطابق مذہبی اخلاقیات کی عالمی سطح پر قیام امن کے لیے حیثیت ایک انتہائی اہم عنصر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب کے رہنماؤں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ مذاہب ایسے کون سے حل پیش کرتے ہیں، جن کی مدد سے آج کی دنیا میں پائے جانے والے تنازعات ختم کیے جا سکتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ ان کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کیسی رہی، یحییٰ خلیل ثقوب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نیتن یاہو نے اسرائیل اور انڈونیشیا کے تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں اگرچہ جکارتہ حکومت کی طرف سے وہاں نہیں گیا تھا، لیکن میری ذاتی رائے میں اسرائیل اور انڈونیشیا کے روابط کو فلسطینی تنازعے سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ لہٰذا جب تک اسرائیلی فلسطینی تنازعہ حل نہیں ہوتا، تب تک اسرائیلی انڈونیشی روابط میں بہتری کی توقع کرنا بھی بہت مشکل ہو گا‘‘۔

کیا نیتن یاہو نے یحییٰ خلیل کی اسرائیل میں موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ان سے ملاقات کر کے کوئی سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی؟ اس سوال کے جواب میں چھ کروڑ انڈونیشی مسلمانوں کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے کہا، ’’شاید نیتن یاہو نے اس ملاقات سے اپنے لیے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن یہی کوشش میں بھی کر سکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ میں نہ تو کسی سرکاری وفد کا حصہ تھا اور نہ ہی انڈونیشیا کی نہضةالعلماء کا کوئی مندوب۔ میں تو وہاں اسلامی علوم کے ایک ماہر کے طور پر گیا تھا۔ اس ملاقات سے کوئی بھی سفارتی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ یعنی جب تک جکارتہ حکومت اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے کا فیصلہ نہ کرے، تب تک نیتن یاہو بھی کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔

کیا اسلام اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین قیام امن میں معاون ثابت ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں یحییٰ خلیل ثقوب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایسا ہو بھی سکتا ہے، اگر مسلم علماء اور مفکرین اسلامی تعلیمات کی ان کے سیاق و سباق کے حوالے سے نئی تشریح پر آمادہ ہو جائیں، تو۔ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آج کے دور میں تنازعات کی توجیہہ کے لیے اسلام ہی کا نام کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ شاید اس لیے کہ یہ اسلام کی اس تشریح اور اس مذہبی فہم کا نتیجہ ہے، جو قرون وسطیٰ سے ایسے ہی چلے آ رہے ہیں‘‘۔

یحییٰ خلیل ثقوب نے کہا، ’’اگر اسلام آج کے دور میں اپنے لیے زیادہ تعمیری کردار کا خواہش مند ہے، تو پھر اسلامی تعلیمات کی ان کے سیاق و سباق کے حوالے سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نئی تشریح کی جانا چاہیے۔ اس لیے کہ جدید دور کے حقائق صدیوں پہلے کے حقائق کے مقابلے میں بنیادی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر ماضی کی ذہنیت کا اطلاق آج کے مسائل پر کیا جائے گا، تو مسائل پیدا ہوں گے۔ اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو علم ہونا چاہیے کہ جب تک ہم اپنا طرز فکر اور مروجہ ذہنیت تبدیل نہیں کرتے، مسائل حل نہیں ہوں گے‘‘۔

DW

Comments are closed.