اگر ایک باورچی ایک چمچہ چاول چکھنے سے پوری دیگ کاذائقہ معلوم کرسکتا ہے ، اگر ایک شپونکے (چرواہا) مینگنی کی نمی سے گزرے ہوئے کار وان کاطے شدہ فاصلہ معلوم کرسکتا ہے ، اگر ایک ناخدا ایک چھوٹا پتھر پھینکنے سے پانی کی گہرای کااندازہ لگا سکتا ہے اور اگر ایک چہرہ شناس ا نسانی چہرے کے ظاہری تاثرات سے باطنی کیفیت کو محسوس کرسکتا ہے تو پھر ہم انسانی رویوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کے انداز گفتگو سے اس شخص کی شخصیت کااحاطہ کیوں نہیں کرسکتے ؟
اس کے سماجی مقام سے اردگر درونما ہونے والے واقعات سے متوقع تبدیلیوں کابروقت ادراک کیوں نہیں کرسکتے ؟ اپنے تجربے اور اپنی عقل کی بنیاد پر کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا اگر سب کیلئے قابل قبول اور حتمی نہیں ہو تو نئے دور کے ایک نئے انسان کی ایک نئی رائے تو ہوسکتی ہے جو تقلید و تکرار کے مقابلے میں ایک لائق تحسین عمل ہے ۔ انسان کے پوشیدہ اور قابل مشاہدہ رویوں (Overt & Covert Behaviors) کو جاننے اور جانچنے کا یہی عمل تو علم نفسیات کی جدید تعریف بھی ہے ۔
اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس کامعاشی اساس اور بالائی ڈھانچہ (Base & Superstructure)کانظریہ انسان کے اعمال ، اخلاقیات ، فکر اور نفسیات سمیت ہر چیز پر منطبق ہوتا ہے ۔ انسانی نفسیات کی تشکیل اورتعمیر متعلقہ معاشرے میں مادی حقائق کے مطابق ہوتی ہیں ۔ انسانی ذہن مادی دنیا میں موجود معاشی تعلقات کے اظہار کا ذریعہ یوں ہے کہ ’’انسانی ذہن کاوجود صرف معاشرے میں ہوتا ہے ، اگر اسے معاشرے اور معاشرتی شعور سے ہٹادیا جائے تو وہ انسانی طریقے سے مادے کوتصور میں تبدیل نہیں کرسکتا ۔ تصور(شعور) کاوجود صرف اس وقت ہوتا ہے جب اسے یہ تین ستون سہارا دیتے ہیں ۔ خارجی شے ، انسانی ذہن اور معاشرتی شعور جو اپنے اندر معاشرتی طور پر پیدا کیے ہوئے انعکاس کی شکلیں ، جن کی انسانیت کے گزشتہ ارتقاء کے دوران ترتیب دی گئی ہے ، جمع کرتا ہے ۔‘‘(1)
سائیکالوجی کامضمون نہ تو انسانی معاشرے سے الگ تھلگ وجود رکھتا ہے اور نہ ہی علم نفسیات کوئی دائمی اور غیر متبدل چیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ علم نفسیات کی تعریف میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے ۔ زمانہ قدیم میں اسے روح کے مطالعہ (Study of Psyche)کادرجہ قرار دیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے ذہنی حیات(Mental Life)سے تعبیر کیاگیا ۔ جب دنیا نے مزید ترقی کی تو اسے انسان کے شعوری تجربے(Conscious Experience)کوقرار دیا اور اب سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے دور میں اس کو انسانی رویوں کاعلم (Study of Human Behaviors) کہا جارہاہے ۔
میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل میں سائیکالوجی کی شکل اور تعریف کیا ہوگی ۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے تاہم کچھ سوالات اس سلسلے میں نہایت اہمیت کاحامل ہیں ۔ مثلاً :
*انسان خواب کیوں اور کیونکر دیکھتا ہے؟
*کیا دماغ اورانسانی ذہن ایک دوسرے سے لاتعلق رہ سکتے ہیں ؟
*کیاآج کاانسان زبان کے بغیر سوچ سکتا ہے ؟
*کیا کسی شخص کی نفسیاتی اُلجھن محض انفرادی مرض ہے یا اس کی نوعیت سماجی ہے ؟
*کیاجسم فروشی کسی صنف نازک کی ذاتی خواہش ہوتی ہے یاحالات کی مجبوری ؟
*کیا ذہنی تعطل معاشرتی نظام کے تعطل کا نتیجہ نہیں ہے؟
*کیا وراثت کی نوعیت انفرادی ہے یاسماجی ؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کافوری جواب دینا سردست تو مشکل ہے لیکن ارتقاء کے مراحل میں ان کا طے ہونا اشد ضروری ہے ۔
جہاں تک شعور کے بارے میں بابائے نفسیات سگمنڈ فر ائیڈ کے تصور کاتعلق ہے جس میں اسے تین حصوں یعنی شعور ، تحت الشعور اور لاشعور میں تقسیم کیاگیا تو ارتقاء کی تاریخ میں فرائیڈ کی اہمیت کو تسلیم کیے جانے کے باوجود اس بات میں کوئی شُبہ نہیں رہا کہ اس تقسیم کے نتیجے میں فرائیڈ نے شعور کی تمام تہیوں کو انسانی ذہن کے اندر مقید کردیا ہے جو انسان کے وسیع تجربے اور مشاہدہ کے بعد اخذ کردہ نتیجے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
آج کی دنیا میں سائنس اور فکر کے ارتقائی مراحل میں خارجی حقائق کومسلمہ حیثیت حاصل ہے ۔ مارکسی فلسفہ سے عدم واقفیت کی وجہ سے ’’لاشعور کے نظریات اسی حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ تخلیق بذات خود ایک خارجی عمل ہے ۔ بیداری کے خواب دیکھنے والا اپنے خوابوں کو زیر تحریر لانے کے خواب سے ہی تسکین حاصل کرلیتا ہے اور وہ شخص جو بالفعل انہیں ضبط تحریر میں لارہا ہے دراصل ان کی خارجیت کوظاہر کرنے اور سماج میں متوازن رکھنے کے عمل میں مبتلا ہے ۔‘‘(2)
علم نفسیات کے نظریہ دان بھی محرکات اور عوامل کے حوالے سے اختلاف کے شکار رہے ۔ سیگمنڈ فرائیڈ نے بنیادی اہمیت جنسی قوت (Libido)، الفریڈ ایڈلر نے ا نا کی مرکزیت( Ego-centrism)جبکہ کارل جونگ نے اجتماعی لاشعور(Collective Unconscious)کو دی ۔ اس طرح سیگمنڈفرائیڈ نے تخلیقی عمل کو جنسی تشفی اور دبی ہوئی خواہشات کی تکمیل کا خواب قرار دیا ۔ الفریڈ ایڈلر نے تخلیقی عمل کوبرتری حاصل کرنے کیلئے طاقت کے حصول سے مربوط کردیا جبکہ کارل جونگ نے تخلیقی عمل کو داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت کادریچہ کھولنے کیلئے اجتماعی لاشعور کو ذریعہ قرار دیا۔
مارکسی سوچ واپروچ نفسیات کو سمجھنے اور سائیکالوجیکل سائنس کاصحیح ادراک کرنے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے ۔معاشرتی نظام کے اندر ہی انسان کو شخصیت کی نشو ونما ، آگے بڑھنے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں جس کو رشین مارکسی دانشور نے مارکسی اپروچ سے تعبیر یوں کیا ہے ۔
“The Marxist approach, however , requires that these be observed within general system & not isolated from it. This requirement, it is understood, refers also to the psychological study of people & to the psychological science.(3)
مارکسی تعلیمات کو مد نظر رکھ کر یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ تخلیق کاعمل انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی عمل ہے ۔ فرد کے جذبات بھی اجتماع کے مشاہدہ کاحصہ ہوتے ہیں ۔ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تخلیق ایک یکطرفہ عمل نہیں ہے بلکہ یہ خارج اور داخل کے مابین جدلیاتی عمل (Dialectical Process)کاٹھوس نتیجہ ہے ۔ ’’ یہ سب تیار شدہ حالت میں معاشرے سے ملتے ہیں ۔ اس لئے معاشرتی نفسیات کو افراد کے شعور کی علیحدہ علیحدہ حالتوں کی محض ایک میزان نہیں سمجھنا چاہیے ۔ شکل اور جوہر دونوں لحاظ سے معاشرتی نفسیات سماجی پیداوار ہے ۔ وہ عوام الناس کے دماغوں میں خارجی ذات کا اپنی حقیقی ہستی کازندگی کے مشترکہ حالات کاانعکاس ہے ۔‘‘(4)
علم نفسیات کاعلم بشریات ، حیاتیات ، فزیالوجی اور نیورولوجی کی طرح ادب اور فلسفہ سے بھی گہرا تعلق ہے ۔ ادب وفلسفہ میں سائیکالوجی کے مختلف پہلوؤں کو زیر بحث لائے جاتے ہیں ،ادب پارے کانفسیاتی تنقید کے تناظر میں بھی جائزہ لیاجاتا ہے اور حقیقت تک پہنچنے کیلئے نفسیاتی تنقید پر نظریاتی اورفلسفیانہ انداز میں بحث مباحثے ہوتے ہیں ۔ بھارت کے دیو ینداایسر کے مطابق ’’مارکسی ادیبوں نے حقیقت نگاری کی روایت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے ہر دلعزیز بنانے کی کوشش بھی کی اور یہ ظاہر کرنے کی سعی کی کہ حقیقت دراصل سماجی حقیقت ہوتی ہے ، فرد کی ثانوی حیثیت ہے ۔‘‘ آگے جاکر وہ کہتا ہے کہ ’’ ادب میں سماجی حقیقت نگاری کے نام پر مارکسیت مکمل فلسفے اورحرف آخر کے روپ میں تنقید اور حقیقت کے شعور کی بنیاد قرار پائی ۔‘‘(5)
انسانی نفسیات کے علم کو حاصل کرنے کیلئے انسان کے ارد گرد کے معروضی حالات ، مادی حقائق اور سب سے بڑھ کر تعلقات پیدا وار اور رشتہ پیداوار کو پیش نظر رکھنا لازم ہے ۔ اس کے بغیر انسانی نفسیات کامطالعہ مابعد الطبعیاتی تو ہوسکتا ہے مگر مادی اور حقیقی نہیں ۔ مارکسی فلسفہ نہ صرف انفرادی شعور اور معاشرتی شعور کا وجود جدلیاتی وحدت میں بیان کرتا ہے بلکہ پرولتاری طبقہ پر مسلط کردہ بورژوا افکار وخیالات سے نجات دلانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔
حوالہ جات
1۔ ولادی سلاف کیلے / ماتو ے کوائزون ، تاریخی مادیت ، سوویت سائنسی اکادمی شعبہ فلسفہ ماسکو ، 1962 ، ص240
2۔ دیو ینداایسر ، ادب اور نفسیات ، یونین پریس دہلی انڈیا ، ص 51
3. Marxism and Psychological Science by A. N.Leonteu 1978 online-marxist archieve.
4۔ ولادی سلاف کیلے / ماتو ے کوائزون ، تاریخی مادیت ، سوویت سائنسی اکادمی شعبہ فلسفہ ماسکو ، 1962 ، ص214
5۔ دیو ینداایسر ، ادب اور نفسیات ، یونین پریس دہلی انڈیا ، ص 142
One Comment