خان زمان کاکڑ
رسول بخش پليجو اٹهاسی سال کی عمر ميں وفات پاگئے۔ قوم پرستی، سوشلزم اور جمہوريت کے سوالات کو اپنے معروض کے مطابق علمی طور پر جوڑنے اور ان ميں سے ايک وقت کی سياست کی روح بنانے ميں بہت سارے پشتون، بلوچ، مہاجر اور پنجابی سياسی دانشوروں کے ساتھ اس سندهی دانشور کا بهی بڑا کردار رہا ہے۔
اس خطے کی مزاحمتی سياست ميں ايک موڑ، ون يونٹ کے خلاف جدوجہد کا آتا ہے، جس سے بہت سارے سياسی کارکنان کے سياسی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ رسول بخش پليجو نے بهی سياسی کیرئیر کا آغاز ون يونٹ يا پنجاب کی بالادستی کے خلاف جدوجہد سے کیا تها۔
ليکن ون يونٹ تو ختم نہيں ہوا۔ صرف شکل بدل دی، پنجاب کا “حقِ حکمرانی” بڑهتا گيا، جس کے حوالے سے تحريکيں بنتی اور ٹوٹتی رہيں، دنيا بدلتی گئی، لوگ بهول گئے کہ کون کيا تها۔ حالاتِ حاضره پہ توجہ اتنی بڑھ گئی کہ کل کا دن بهی ياد نہيں رہا۔ ورنہ علمی اور نظرياتی لحاظ سے کتنا منافع بخش ہوتا کہ ہم سندھ کی سياسی تاريخ کے حوالے سے جی ايم سيد، حيدر بخش جتوئی، شيخ اياز، قاضی فيض محمد، رسول بخش پليجو، ابراہيم جويو، سوبهوگيان چندانی اور جام ساقی وغيره کے بارے ميں جانتے۔
سندھی نيشنلزم ميں تصوف اور اشتراکيت کا تڑکا شايد اس کو باقی نيشنلزم سے ممتاز رکهتا ہے۔ تصوف کے ذريعے سرکاری مذہبی بيانيے کو چيلنج کرنا شايد ايک سٹريٹجی ہو جو کہ پهر قوم پرستی پر حاوی ہو ہی گئی جبکہ قومی جدوجہد ميں مارکسزم ايک دور کا سوال تها جس کا جواب ڈهونڈنے کيلئے رسول بخش پلیجوجيسے اکثر تعليم يافتہ قوم پرست نکل گئے تهے۔
اس سوال کا جواب ڈهونڈنے کيلئے سندهی نيشنلزم نے دہائيوں سے پيپلزپارٹی کی شکل ميں اپنے لئے جو اکلوتا سياسی دشمن بنا رکها ہے، شايد معروض کی کوئی ايسی حقيقت ہو جس کو سمجھنا مجھ جيسے “آوٹ سائيڈر” کيلئے ممکن نہيں۔
بيسويں صدی کی سياسی طور پر سب سے بيدار مغز دہائی -60 ميں جو لوگ قوم پرست اور ترقی پسند سياست کے ميدان ميں داخل ہوئے ہيں، قابلِ غور نکتہ يہ ہے کہ وه پهر کئی نسلوں تک کو متاثر کرگئے ہيں۔ پليجو صاحب کا تعلق بهی اسی قبيلے سے تها۔
لائير فريٹرنيٹی کا ايکٹوازم بهی اس دور ميں بہت کهل کرکے سامنے آتا ہے۔ پليجو صاحب لاء اور سياست کو جوڑنے والوں ميں سے تهے۔ وه پروفيشن کو پاليٹکس سے عليحده رکهنے کی لاجک پہ يقين نہيں رکهتے تهے۔ وه ٹھکرائے ہوؤں اور ٹکرلينے والوں کے مقدمے ايک سياسی سرگرمی کے طور پر لڑتے تهے۔ حيدر آباد سازش کيس ميں ولی خان اور ان کے ساتهيوں کو ڈيفنڈ کرنے کيلئے وکلاء کی جو ٹيم تهی، اس ميں پليجو صاحب بهی شامل تهے۔
رسول بخش پليجو ولی خان کے ساتهی تهے۔ ولی خان کی نيشنل ڈيموکريٹک پارٹی ، پلیجوکی سندھ عوامی تحريک، افضل بنگش کی مزدور کسان پارٹی اور پاکستان نيشنل پارٹی کا لطيف آفريدی گروپ نے جب1986 ميں ملکر عوامی نيشنل پارٹی بنائی تو اس کا پہلا مرکزی جنرل سيکرٹری پليجو صاحب بنے۔
ولی خان کو پشتو کا سب سے مقبول فوک صنف ٹپے ہزاروں کی تعداد ميں ياد تهے۔ سنا ہے پليجو صاحب نے پشتو ٹپوں کا ترجمہ سندهی ميں کيا ہے۔ وه متعدد زبانوں پر عبور رکهتے تهے۔ پليجو صاحب ايک باقاعده اديب تهے۔ کئی ادبی تصانيف چهوڑ گئے ہيں۔
سندھ ميں ايک طرف خالص پارليمانی دور کے شروع ہونے اور دوسری طرف عليحدگی پسندوں کا زور پکڑنے کے ساتھ ہی پليجو صاحب جيسے “آٹونوميسٹ” کيلئے ماضی کی طرح متحرک اور متعلقہ رہنا کافی مشکل ہوگيا۔ ايک وقت کے “ضمير کے قيدی” پهر اپنے گهر کے قيدی بن گئے، گهر کا جو نیا مالک بنا، بے کار سی زبان بولنے لگا، دانشورنما چہره دکهانے کے باوجود بہت ساروں کو پسند نہيں تها کہ اس کی شناخت رسول بخش پليجو کے بيٹے کے طور پر ہو۔
سندھ صوفياء کی سرزمين، انڈس ويلی کی تہذيب يافتہ مٹی، جس پر آج بيرونی اور اندرونی قبضہ اور بهتہ مافيا کا راج ہے، جو ملک کا اقتصادی حب ہے، جس ميں سندهی محکوم اور مزدور ہيں، جس کے کراچی اور حيدر آباد ميں شہری تشدد اس کا امتياز ہے، سندھ ميں جاگيردار اور پير کيا کرسکتے گر ان کے پيچهے وردی نہ ہوتی، گر وردی کو وہاں سے “رضاکار فورس” نہ ملتی، اور وردی کو وہاں لمبی چهوڑی زمينيں الاٹ نہ ہوتيں، جہاں کوئی بڑے سے بڑا سياسی سوال“شاه جو رسالو“، “سندهی اجرک” اور“ہوجمالو” پہ ترجيحی توجہ پانے ميں کامياب نہيں ہوا، جہاں سب کچھ کلچر ہی بتايا گيا، جہاں مزاحمت کی روايت کبهی نہيں مری، الله بخش سومرو سے رسول بخش پليجو تک۔
♦