بی کے تیواڑی بڑے باخبر،وسیع تعلقات رکھنے والے اور مقبول ہندوستانی صحافی تھے۔ اکتوبر 1959میں جب میری ان سے دلی میں ملاقات ہوئی تو وہ اس وقت امریکی خبر رساں ایجنسی UPIکے نمایندے تھے۔ تیواڑی ، الموڑہ کے برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ہندوستان کے وزیر داخلہ پنڈت گوبند ولبھ پنت کے بھانجے تھے اور بیگم رعنا لیاقت علی سے بھی ان کی قریبی رشتہ داری تھی، جن کا وہ بڑے احترام اور محبت سے ذکر کرتے تھے۔ اندرا گاندھی سے بھی جو اس زمانے میں کانگریس کی صدر تھیں ، بڑے قریبی تعلقات تھے اور وہ پنڈت پنت اور نہرو کے درمیان گہری دوستی کے پیش نظر تیواڑی کا بہت خیال رکھتی تھیں۔
نہ جانے کیا بات تھی کہ پہلی ملاقات کے فورا بعد تیواڑی ، میرے بڑے قریبی قابل اعتماد دوست بن گئے اور کئی بار انہوں نے کابینہ کے اہم فیصلوں کے بارے میں مجھے بطور تحفہExclusive خبریں عنایت کیں تھیں ۔مارچ 1961 میں پنڈت پنت کے انتقال کے چند ماہ بعد ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ ایک اہم معاملہ میں مجھ سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی کہ تیواڑی مجھ پر اتنا بھروسہ کرتے ہیں۔ مجھے انہوں نے انڈین ایکسپریس کا ایک خط دکھایا جس میں انہیں سنگا پور میں بیورو چیف کی پیش کش کی گئی تھی۔ پوچھنے لگے کہ کیا خیال ہے تمھارا کیا میںیہ پیش کش قبول کر لوں۔ میں نے کہا کہ یہ پیش کش ہندوستان کے ادارے کی طرف سے ہے اور لاجواب ہے۔میں نے کہا کہ آپ آج کل ایک امریکی ایجنسی سے منسلک ہیں بلاشبہ اس ادارے میں آپ کا احترام ہے اور تنخواہ بھی بہت اچھی ہے اور مراعات بھی بہت زیادہ ہیں لیکن آپ کا مستقبل ہندوستان کی صحافت کی منجھدارسے وابستہ ہے ۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے ہندوستان کی مین اسٹریم جرنلزم میں آنے کا۔
تیواڑی نے کہا کہ تمھاری باتوں میں وزن ہے ۔ میں چند دن بعد الموڑہ جاوں گا اور وہاں گاوں میں تمھارے مشورے پر غور کروں گا اور کوئی فیصلہ کروں گا۔مجھے بھی اس دوران چند ہفتوں کے لئے کراچی جانا پڑا۔ دلی واپسی پر تیواڑی کو بہت تلاش کیا کہیں اتا پتا نہیں ملا۔ کوئی ڈیڑھ ماہ بعد سنگا پور سے ایک کارڈ ملا ۔ یہ تیواڑی کا کارڈ تھا جس میں انہوں نے میرے مشورہ کا شکریہ ادا کیا اور اطلاع دی کہ انہوں نے سنگاپور میں انڈین ایکسپریس کے بیورو چیف کا عہدہ سنبھال لیا ہے پورا مشرق بعید ان کے’’ راج‘‘ میں شامل ہے اور وہ اس پر وہ بے حد خوش ہیں۔ مجھے بھی بے حد خوشی ہوئی کہ کسی نے میرے مشورہ کو اتنی اہمیت دی ۔
تیواڑی مشرق بعید کے اپنے وسیع راج میں مصروف ہوگئے اور میں ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ اورپھر ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے بحران میں الجھ گیاجس کے دوران تہاڑ جیل میں قید تنہائی کی صعوبتیں برداشت کیں اور وطن کے راستہ لندن آگیا۔ 1975میں خوشی کی انتہا نہ رہی جب تیواڑی بھی انڈین ایکسپریس کے نمایندے کی حیثیت سے لندن میں تعینات ہوئے۔ اس وقت ایک چینی خاتون ان کی رفیقہ حیات تھیں۔ ان کا تعلق چین کے جزیرہ مکاو میں موٹر کاروں کے ایک مالدار تاجر گھرانے سے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی شادی دراصل اندرا گاندھی نے کرائی ہے ۔ میں نے جب پوچھا کہ وہ کیسے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے بعد چینیوں کے خلاف اس قدر منافرت تھی مجھے اپنی ہونے والی بیوی کو ہندوستان لے جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ جب میں نے اس کا اندرا گاندھی سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم تو ہندوستان کے باہر رہو گے اس لئے ڈرنے کی بات نہیں ۔ چینی اچھی لڑکی ہے ۔ اس سے اچھی لڑکی تمہیں نہیں ملے گی تم فورا اس سے شادی کر لو۔
لندن میں ایک ملاقات کے دوران تیواڑی نے بتایا کہ سنگا پور میں تعینات کے دوران ،ان کے ذوالفقار علی بھٹو سے بڑے اچھے اور قریبی تعلقات استوار ہو گئے تھے اور وہ اس پر بڑا اعتماد کرنے لگے تھے۔ تیواڑی نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ جب بھٹو شملہ مذاکرات کے لئے جانے والے تھے توانہوں نے مجھے خاص طور پر لاڑکانہ بلایا اور المرتضی میں مہمان کے طور پر رکھا۔ میں نے تیواڑی سے پوچھا کہ کیا چاہتے تھے بھٹو صاحب۔ تیواڑی نے بتایا کہ بھٹو صاحب کو علم تھا کہ میں اندرا گاندھی سے کتنا قریب ہوں اور ان کی نفسیات سے بخوبی باخبر ہوں۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ شملہ مذاکرات میں ،اندرا گاندھی سے کس طرح ڈیل کیا جائے ۔ تو اس سلسلہ میں آپ نے بھٹو کو کیا مشورہ دیاْ میں نے پوچھا۔
تیواڑی نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ میں نے کہا کہ اندرا گاندھی سے ڈیل کرنا بہت آسان ہے۔ جو آپ چاہتے ہیں اس کے برعکس مانگیں ۔ اگر آپ جنگی قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں تو ان سے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ اور اگر ،مقبوضہ علاقے واپس چاہتے ہیں تو کہیے کہ میرے جنگی قیدی مجھے واپس کر دیں۔تیواڑی نے ایک اور زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ بھٹو نے شملہ میں میرے مشورے پر عمل کیا اور وہ جو چاہتے تھے وہ حاصل کرلیا۔
بھٹو جیسے ہی شملہ پہنچے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ یہاں آرام دہ بستر پر نہیں سوئیں گے بلکہ زمین پر سوئیں گے کیونکہ ان کے 93ہزارہم وطن فوجی جو ہندوستان کی قید میں زمین پر سونے پر مجبور ہیں۔ تیواڑی کا کہنا تھا کہ بھٹو نے اندرا گاندھی سے بات چیت میں زور دیاکہ وہ چاہتے ہیں ہیں کہ انسانی ہمدردی کے پیش نظر پاکستان کے جنگی قیدی جلد از جلد رہا کیے جائیں تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں سے مل سکیں۔ اندرا گاندھی نے بھٹو کی یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیاان کا استدلال تھا کہ 93ہزار جنگ قیدیوں کی واپسی پاکستان کی فوجی قوت کی بحالی میں ممد ثابت ہوگی۔
تیواڑی کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب دو وجوہ کی بناء پر چاہتے تھے کہ جنگی قیدی ابھی کچھ عرصہ ہندوستان کی قید میں رہیں ، اول ان کی دیکھ بھال کابھاری بوجھ ہندوستان کوبرداشت کرنا پڑے گا دوم ان قیدیوں کے مسئلے پر ہندوستان کے خلاف موثرعالمی پروپیگنڈاجاری رکھا جا سکے گا۔ اس کے برعکس بھٹو مقبوضہ علاقے فی الفور واپس چاہتے تھے۔ اور اندرا گاندھی بڑی آسانی سے مقبوضہ علاقے واپس دینے پر راضی ہو گئیں۔
مجھے معلوم تھا کہ اندرا گاندھی کے توسط سے تیواڑی کے ان کے دو خاص کشمیری مشیروں ، پرمیشور نارائین ہکسراور درگا پرساد دھر سے گہرے تعلقات تھے۔میں نے تیواڑی سے پوچھا کہ کیایہ صحیح ہے کہ دونوں مشیروں کے درمیان اس پر اختلاف تھا کہ شملہ مذاکرات میں پاکستان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے۔ تیواڑی کا کہنا تھا کہ یہ صحیح ہے ۔ درگا پرساد دھر پاکستان کے خلاف سخت موقف کے زبردست حامی تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک شکست خوردہ فریق کی حیثیت سے کشمیر کادایمی سمجھوتہ طے کرنے پر مجبور کیا جائے اور جنگی قیدیوں کی واپسی اور مقبوضہ علاقوں سے ہندوستانی فوج کاانخلاء کشمیر کے دایمی حل سے مشروط کیا جائے۔
تیواڑی نے بتایاکہ مذاکرات کے دوسرے روز درگا پرساد دھر پر ہلکا سے دل کا دورہ پڑا اور وہ مذاکرات سے علیحدہ ہوگئے اور پی این ہکسر نے مذاکرات کی باگ ڈور سنبھالی۔تیواڑی کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں ہکسر کا رویہ قدرے ملائم تھا ۔ان کی رائے تھی کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلی اور بر صغیر کو معرکہ آرائی کی سیاست سے نجات دلانے کا یہ بہتریں موقع ہے ۔ لیکن ہکسر کا اصرار تھا کہ پاکستان ، کشمیر میں جنگ بندی لائین کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرے اور کشمیر کا تنازعہ اور اس کے ساتھ دوسرے تمام باہمی تنازعات دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ طے کئے جائیں اور انہیں بین الاقوامی ثالثی اور مصالحت قطعی نہ الجھایا جائے۔
تیواڑی نے بتایا کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ شملہ مذاکرات سے چند روز قبل بھٹو کے قریبی مشیر عزیز احمد روسی حکام سے بات چیت کرنے ماسکو گئے تھے۔ شملہ مذاکرات سے ایک روز پہلے ماسکو سے دلی کو ایک تار ملا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ عزیز احمد نے واضح اشارہ دیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کشمیر میں جنگ بندی لائین کو بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لئے راضی ہو جائیں گے۔ اسی بنیاد پر شملہ مذاکرات میں ہندوستان کا تمام تر زور اس پر تھا کہ پاکستان جنگ بندی لائین کو بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کرے اور تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات سے طے کئے جائیں۔
تیواڑی کا کہنا تھا کہ پانچ روزہ مذاکرات میں کوئی بات طے نہ ہوسکی اور مذاکرات ناکام ہوگئے۔ جس کے بعد بھٹو صاحب نے اندرا گاندھی سے تخلیہ میں براہ راست ملاقات کا فیصلہ کیا۔تیواڑی کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات، فیصلہ کن ثابت ہوئی ۔بھٹو صاحب نے اندرا گاندھی سے صاف صاف کہا کہ بلاشبہ جنگ بندی لائین کے بارے میں ہندوستان کی تجویز قابل عمل ہے لیکن اسوقت اس پروہ رسمی طور پر پیمان نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ اس سے پاکستان میں ان کی پوزیشن بے حد کمزور ہو جائے گی اس کے نتیجہ میں فوجی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط ہوجائیں گے اور سیاست پر دوبارہ حاوی ہو جائے گی جو اس وقت فوجی شکست کی وجہ سے پسپا ء ہے ۔
بھٹو کا اندرا گاندھی سے کہنا تھا کہ اس صورت حال میں وہ صرف زبانی یقین دہانی دے سکتے ہیں کہ کشمیر میں سرحد بتدریج بین الاقوامی نوعیت حاصل کر لے گی۔ تیواڑی کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں بھٹو صاحب نے اندرا گاندھی سے کہا کہ کیا انہیں اس پر خوشی نہیں کہ میں نے ان کا یہ اہم مطالبہ تسلیم کر لیا ہے کہ کشمیر سمیت دونوں ملکوں کے تنازعات دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ طے کیے جائیں گے۔
تیواڑی کا کہنا تھا کہ انہیں پی این ہکسر نے بتایا تھا کہ اس موقع پر اندرا گاندھی نے جذباتی فیصلہ کیا تھا۔اندرا گاندھی نے ہکسر سے کہا تھا کہ وہ بھٹو پر بھروسہ نہیں کرتیں لیکن پاکستان میں جمہوریت کی خاطرانہوں نے بھٹو کی یقین دہانی تسلیم کرلی ہے ۔ چنانچہ ۲ جولائی 1972کو رات گئے اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیاں شملہ سمجھوتہ پر دستخط ہوگئے۔
♦