سائرس ادریس
پروفیسر تھامس تھامسن، جن کا شمار دنیا کے چوٹی کے ماہرین آثار قدیمہ میں ہوتا ہے اور وہ بائبلی آثار قدیمہ پر اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں، نے پندرہ برس کی تحقیق و تفتیش کے بعد “اسرائیلیوں کی ابتدائی تاریخ” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔اس کتاب میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ابراہیم، یعقوب، موسیٰ، داؤد، سلیمان، اور بائبل کے بہت سے اہم کرداروں کا حقیقی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا۔وہ بس اساطیری قصے کہانیوں کے افسانوی کردار تھے۔
پروفیسر تھامسن کے بقول اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ بائبل کی پہلی دس کتابیں افسانے ہیں۔نیز یہ کتابیں یا افسانے اس زمانے میں لکھے گئے جب ان میں بیان کردہ فرضی واقعات کو بیتے پانچ سو بلکہ ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے تھے۔مزید براں بائبل جو واقعات بیان کرتی ہے تاریخ، اثار قدیمہ، علم بشریات، اور عمرانیات ان کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔لہذا آج ہم پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو اسرائیلی کبھی مصریوں کی غلامی میں رہے اور نہ ہی ان کا مصر سے انخلا ہوا۔اسی طرح چالیس سال تک صحرائے سینائی میں دشت نوردی، کنعان یا ارض موعودہ کی فتح، اور یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے واقعات پیش نہیں آئے۔
یروشلم اور یہودا (Judea) کے آس پاس کھدائی سے وہاں دسویں صدی قبل مسیح کے زمانے میں کسی آبادی کے کوئی آثار نہیں ملے۔یہ وہی زمانہ ہے جب بائبل کے بقول داؤد اور سلیمان بادشاہ کی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عظیم سلطنت آبادی کے بغیر ہی وجود میں آ جائے؟ خیال رہے یروشلم ایک بڑا اور اہم شہر یسوع مسیح کی آمد سے ٦٥٠ سال پہلے بنا۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ طالوت، داؤد، اور سلیمان ایک چھوٹی سے بستی میں اپنے وقت کی عظیم الشان سلطنت قائم کرکے اس پر حکمران رہے ہوں۔بائبل کی کہانیاں دلچسپ اور خوش کن ضرور ہیں لیکن تاریخی حقائق سے خالی۔
پروفیسر تھامسن کے بقول بائبل کی داستانیں پانچویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئیں جب یروشلم اور اس کے آس پاس کا علاقہ ایرانی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔اسرائیلی قوم کی تخلیق کا سہرا بھی ایرانیوں کے سر ہے۔خیال رہے بخت نصر یروشلم کو تباہ کرکے نہ صرف یہودی بلکہ فلسطینی، شامی، اور فینیقی باشندوں کو بھی زبردستی بابل لے گیا تھا۔ایرانیوں نے ان کی اولادوں کو ٤٥٠ قبل مسیح میں دوبارہ یروشلم میں آباد کر دیا۔نیز انہوں نے یہودیوں کے خدا یہوا کا معبد بھی تعمیر کر دیا۔
گویا یروشلم میں یہوا کی پہلی عبادت گاہ بائبل کی بیان کردہ تاریخ کے کوئی پانچ سو سال بعد تعمیر ہوئی۔اس سے قبل یہوا کی عبادت گاہ سامریہ (Samaria) میں تھی۔یروشلم کی تعمیر و ترقی سے ایرانیوں کا مقصد علاقے میں سامریہ کا اثر و رسوخ کم کرنا تھا۔نیز مقامی دیوتاؤں اور خداؤں کے معبدوں یا عبادت گاہوں کی تعمیر ایران کی سیاسی پالیسی کا ایک حصہ تھا۔
محققین نے پروفیسر تھامسن کی کتاب کا خیر مقدم کیا ہے۔ارض موعودہ سے متعلق آثار قدیمہ کے ایک اور ماہر جوناتھن توب بھی پروفیسر تھامسن کی تحقیق اور دلائل کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ان کے بقول پروفیسر تھامسن نے نہ صرف بہت گہری تحقیق کی ہے بلکہ اس تحقیق کے نتائج بلا خوف و خطر پیش کر دئیے ہیں۔ یہ وہ نتائج ہیں جن سے محققین عرصے سے باخبر ہیں لیکن کھلے عام اظہار کی جرات نہیں کرتے۔
یہودی اور عیسائی مذہبی پیشواؤں نے پروفیسر تھامسن کی کتاب پرملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔بیشتر ربیوں کا کہنا ہے کہ بائبل تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔یہ تو خدا اور بندے کے درمیان رشتہ استوار کرنے کی غرض سے لکھی گئی۔لہذا بائبل میں تاریخ کی بجائے حکمت و دانائی تلاش کریں۔ربی جولین جیکب کے بقول بائبل مقدس آسمانی صحیفہ ہے اور اس کی صداقت کسی تاریخی شہادت کی محتاج نہیں۔کچھ عیسائی پادریوں نے اس کتاب کو مقدس آسمانی صحیفوں کی صداقت پر حملہ قرار دیا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے پروفیسر اسرائیل فنکلسٹین اور آرکیالوجی میگزین سے وابستہ ماہر آثار قدیمہ اور مورخ نیل آشیر سلبرمین اپنی کتاب “The Bible Unearthed” میں اسرائیلیوں کے مصر سے انخلا، کنعان کی فتح، داؤد اور سلیمان کی سلطنت، اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے معاملے پر پروفیسر تھامسن کے موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔نیز وہ اعتراف کرتے ہیں کہ آثار قدیمہ سے بائبل کی داستانوں کو سچ ثابت کرنا ممکن نہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ یروشلم اور اس کے گرد و نواح میں کھدائی سے بائبل میں بیان کردہ بہت سے قصبوں اور شہروں کی شناخت ہو چکی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بائبل میں درج تاریخی واقعات سچے ہیں۔اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ تاریخی واقعات نہ تو ایسے پیش آئے جیسے بائبل بیان کرتی ہے اور نہ ہی بائبل کے بیان کردہ زمانے میں۔حقیقت تو یہ ہے کہ بائبل کے بیان کردہ بہت سے اہم واقعات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئے۔
مزید براں اسرائیل، مشرق قریب، اور دنیا بھر میں ہونے والی آثار قدیمہ کی دریافتوں کا اسرائیلیوں کی تاریخ سے موازنہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بائبل مذہبی پیشوائیت کا ایک شاندار افسانوی ادبی شاہکار ہے لیکن اس کی کوئی حقیقی تاریخی بنیاد نہیں۔
بریان ڈننگ بھی “کیا اہرام مصر یہودی غلاموں نے تعمیر کئے تھے؟” کے عنوان سے اپنی بلاگ میں بائبل کے بیان کردہ واقعات کو افسانے قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ بائبل کی یہ کہانی کہ اہرام مصر یہودی غلاموں نے تعمیر کئے تھے بہت مقبول ہے۔ہالی ووڈ میں اس موضوع پر شاہکار فلمیں بھی بن چکی ہیں لیکن تاریخ اور آثار قدیمہ کی شہادتیں بائبل کی تائید نہیں کرتیں۔
جب اہرام مصر تعمیر کئے گئے اس وقت مصر میں کوئی یہودی نہیں تھا۔نیز ١٩٩٠ میں اہراموں کے نزدیک کھدائی سے ان اہراموں کو تعمیر کرنے والے مزدوروں کے مقبرے اور ان کے تفصیلی کوائف مل گئے۔یہ مزدور مصری کسان تھے۔ان میں سے اکثر کی زمینیں دریائے نیل کے سیلاب کی نذر ہو جاتی تھیں اور وہ بیکاری کے اس دور میں اہراموں کی تعمیر کا کام کرتے تھے۔ان کو معقول اجرت ملتی تھی۔
نیز ان کی خوراک، رہائش، اور طبی امداد کا بہترین انتظام تھا۔ان کو کھلانے کے لیے روزانہ ٢١ گائے بھینسیں اور ٢٣ بھیڑیں ذبح کی جاتی تھیں۔بیمار ہو جانے والے مزدوروں کو بھی اجرت ملتی رہتی تھی۔ مرنے والے مزدوروں کو پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جاتا تھا۔ لہذا ان تاریخی اور آثار قدیمہ کی شہادتوں کی موجودگی میں یہودی غلاموں کے اہرام مصر تعمیر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خیال رہے یہودی ہر سال مصریوں کی غلامی سے نجات کی خوشی میں عید الفصح کا تہوار مناتے ہیں۔ ان تاریخی اور آثار قدیمہ کے انکشافات کے بعد یہودی دانشوروں خصوصاًنوجوانوں نے اس تہوار بلکہ بائبل کی داستانوں پر سوالات اٹھانا شروع کر دئیے ہیں۔ان کی بہت سے بلاگ اور مضامین امریکی اور اسرائیلی اخبارات میں شائع ہو چکے ہی۔ں جو قاری ان مضامین کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں میں ان کو لنک فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
♦
3 Comments