امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بذریعہ ٹیلی فون پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے افغانستان میں سیاسی مفاہمت کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی دفتر خارجہ یا فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے امریکی وزیر خارجہ کی پاکستانی فوجی سربراہ سے اس گفتگو کے حوالے سے کوئی بیان ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن امریکی دفترِ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوئرٹ نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ نے جنوبی ایشیاء میں ساری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے کارروائی کی اہمیت پر بات کی ہے۔
یہ گفتگو ایک ایسے موقع پر ہوئی جب افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو ایک ہفتے کی جنگ بندی کی پیش کی ہے۔
اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں کچھ عرصے سے سرد مہری ہے اور ملک میں کئی تجزیہ نگار اس رابطے کو پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان پر عالمی دباؤ ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ 24 جون کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنائی گئی اپنی حکمتِ عملی بتانی ہے اور اب تک کیے گئے اقدامات سے اس تنظیم کو آگاہ کرنا ہے۔ اگر یہ تنظیم اسلام آباد کے اقدامات سے مطمئن نہ ہوئی تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
اس طرح کے اقدامات اور امریکا کی طرف سے دباؤ پر پاکستان میں کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ اس رابطے کا مقصد اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالا جائے: ’’ایک طرف یہ بھارت کو خطے میں اہم کردار دیتے ہیں۔ عالمی بینک پر دباؤ ڈالوا کرے پاکستان کے خلاف فیصلے کراتے ہیں۔ ہم پر الزامات لگاتے ہیں اور پھر یہ امید بھی کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے مسئلے پر ان سے تعاون کریں۔ آج کا یہ رابطہ بھی ڈُو مور کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس چکر سے نکلیں۔ امریکا ہمیں دیوار سے لگا رہا ہے۔ وہ بھارت کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خطے میں دوسرے اتحادی دیکھیں اور امریکا کو دی جانے والی سہولیات کو بند کر کریں‘‘۔
واشنگٹن اسلام آباد پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں ہیں، جو یہاں سے افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ لیکن جنرل امجد کے خیال میں یہ ایک بے بنیاد الزام ہے: ’’امریکا کو خود بھی معلوم ہے کہ روس اور ایران طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ ہم پر الزامات لگاتا ہے لیکن ہم نے انہیں کھلی دعوت دی ہے کہ آئیں اور بتائیں کہ کہاں ہیں یہ پناہ گاہیں۔ وہ آج تک اپنا ایک بھی الزام ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ یہ الزامات صرف پاکستان کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش ہے۔ در حقیقت امریکا افغانستان میں استحکام چاہتا ہی نہیں ہے۔ اس کے عزائم یہاں رُک کر ایران، پاکستان، چین اور روس پر نظر رکھنا ہے‘‘۔
جبکہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جرنیل ابھی تک اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج مسلسل دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ لشکر طیبہ، جیش محمد ،حزب اسلامی اور حقانی گروپ جرنیلوں کے سٹریٹجک اثاثے ہیں۔پاک فوج نے حال ہی میں ایک بار پھر طالبان کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں لانچ کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان بظاہر کتنا ہی انکار کرے کہ وہ مشکلات میں گھرا ہوا نہیں ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد بین الاقوامی طور پر تنہائی محسوس کر رہا ہے اور یہ تنہائی اس کے معاشی مسائل میں بہت اضافہ کردے گی کیونکہ ملک میں مالیاتی مسائل پہلے ہی بہت بڑھے ہوئے ہیں اور پاکستان کو فوری طور پر کم از کم سات ارب ڈالرز کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی معاشی مشکلات سے نکل سکے۔ اس کے لیے اسلام آباد کو بین الاقوامی برادری کو مطمئین کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کچھ اقدامات یقیناً کرنے پڑیں گے: ’’پاکستان افغانستان کے استحکام میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ وہ خطے کا ایک اہم ملک ہے لیکن وہ ایسا علی الاعلان نہیں کرے گا بلکہ خاموشی سے امریکا کے ساتھ تعاون کرے گا تاکہ اسلام آباد کو بلیک لسٹ میں شامل نہ کیا جائے۔ پاکستان کا قومی مفاد اس وقت یہ ہے کہ اسے اس لسٹ میں شامل نہ کیا جائے اور اس کے لیے اسلام آباد زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے گا‘‘۔
DW/News Desk