دلیل تو اُس بھیڑئیے کے پاس بھی تھی جو بھیڑکے بچے پر پانی گندہ کرنے کا الزام لگا رہا تھا۔اوردلیل تو نمرود کے پاس بھی تھی جو ابراہیم کو آگ میں جلانے کا حکم دے رہا تھا۔ دلیل توفرعون کے پاس بھی تھی جو موسیٰ ؑ پر پالنے کا احسان جتاکر ان کی پوری قوم کو غلام بنا رہا تھا۔ دلیل تو اُس ابو جہل کے پاس بھی تھی جو اُس کڑی چلچلاتی دھوپ میں آگ کی بھٹی کے پاس لہو لہان رسوں میں جھکڑی بوڑھی کمزور عورت کو جس کو مارمار کر بے حال کردینے کے بعدجس کے ہاتھوں اور پاؤں کو الگ الگ سمت میں کھینچ کر باندھ دیاگیا تھا اور پھرنیزہ مار کرجسم کو چیر کر رکھ کے، اپنیطاقت ور ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔
دلیل تو سب طاقت وروں کے پاس ہوتی ہے۔ اور دلیل جناب فواد چوہدری صاحب آپ کے پاس بھی ہے لیکن یاد رہے دلیل ان سب کمزور لوگوں کے پاس بھی ہو تی ہے اور وہ ہوتی ہے کہ
وارث مان نہ کر وارثاں دا۔۔۔۔۔۔۔۔رب بے وارث کر مار دا ای
چک سکندر کے سارے احمدی گاؤں کو لوٹنے کے بعد آگ لگا کر خاکسترکردیا گیا۔بچیاں تک شہید کر دی گئیں۔ گاؤں اجاڑ دیا گیااور احمدی مکین کئی سال تک اپنے ہی گاؤں میں جانے کے لئے عدالتوں کے چکر لگا کر اجازتیں طلب کرتے در بدر پھرتے رہے۔ مگر ذمہ دار کہہ رہے تھے کہ گاؤں میں دوفریقوں کا کوئی زمینوں کا جھگڑا تھا۔ مذہب کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ننکانہ شہر میں پورا احمدی محلہ جلا دیا گیا مسجد مسمار کر دی گئی۔ گھر لوٹنے کے بعد مسمار کر دئیے گئے۔مسجد سے نکال کر قرآن مجیداعلیحدہ جلائے گئے۔ حتیٰ کہ احمدی مرغیوں کو بھی آگ میں جھونک دیا گیاجواب تھا مذہب کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔
ذاتی رنجش پر جھگڑا ہواہے۔گوجرانوالہ میں،مانسہرہ میں،ایبٹ اباد میں، صوابی میں،ٹوپی میں،بالاکوٹ میں بھکر میں، حیدر آباد میں، تخت ہزارہ میں،بھلوال میں،سیالکوٹ میں۔ کہاں کہاں کہاں۔۔ مگر مجال ہے کہ احمدیوں کا کبھی کسی سے مذہبی جھگڑا ہوا ہو یا کبھی کسی مسلمان بھائی نے کبھی کسی احمدی سے مرغوں کے علاوہ کسی بات پر جھگڑا کیا ہو۔ اسی لئے تو سانحہ لاہور سے چندگھنٹے بعد جب احمدی اپنی دو مساجد سے کوئی سو کے قریب لاشیں اُٹھا رہے تھے۔ ہمارے عقل کل اورصحافت کے مارک ٹیلی جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب اندر کی خصوصی اطلاع دیتے ہوئے قوم کو بتا رہے تھے کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے اس میں مذہب کا کوئی لین دین نہیں۔ اس طر ح کے واقعات تو دہشت گرد کرتے رہتے ہیں۔
فواد چوہدری صاحب آپ نے مریم اورنگ زیب صاحبہ کی طرح، کائرہ صاحب کی طرح اور دوسرے دیگر اپنے پیش رؤوں کی طرح اللہ کے ایک اور جلتے ہوئے گھر کو مرغوں کی لڑائی کا نام دے دیا کوئی بات نہیں۔کیونکہ ہم پھر وہی کہیں گے کہ جو تجھ سے پہلے اس جگہ تخت نشیں تھا۔۔۔اُسے بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا۔
مجھے پاکستان کے معروف کالم نویس جناب ہارون الرشیدکی بات یاد آ رہی ہے جو انہوں نے اپنے 25 اگست 2018 کے پروگرام تھنک ٹینک میں ظلم اور ظالم کی رسی کے حوالے سے کی۔ آپ فرماتے ہیں ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا کی زمین پر ظلم کرتے چلے جائیں اور بچ جائیں۔ ایک دن حساب دینا ہو گا ۔ ہٹلر نے مسولینی نے دنیا فتح کر لی تھی پھر کیا ہو ا؟ نپولین تو ایک بہت ہی عزت کا نام مگر پھر کیا ہوا اسے بھی روس کے برف زاروں میں گھیر لیا گیا۔ ہر آدمی اپنے اعمال کا قیدی ہے۔ ہر آدمی کو اپنے کرتوت کوفیس کرنا ہوتا ہے‘‘۔
جناب وزیر صاحب آپ کی وساطت سے ملک کے وزیر اعظم صاحب سے ایک ہی درخواست کرنا ہے آپ سے صرف اتنا دست بستہ عرض کریں گے کہ حضرت محمدؐ اور خلفائے راشدین کا نام تو بدنام نہ کریں۔بات آپ ریاست مدینہ کی کرتے ہیں،ہزاروں میل دور دریائے فرات کے کنارے بھوکے کتے کے مرنے پر بھی مجرم ہونے کی کرتے ہیں،خلیفہ وقت کے یہودی کے ساتھ عدالت میں کھڑے ہونے کی کرتے ہیں اور عملاً اسلام آباد سے صرف 289 کلومیٹر دور ایک اقلیتی فرقے کی مسجد کو آگ لگائی جاتی ہے،گھروں میں داخل ہو کر قربانی کے جانور اُٹھا کر لے جاتے ہیں،6 بندوں پر فائرنگ ہوتی ہے اور تحقیق تو دور عقل اور کامن سینس کو بھی تیاگ کر آپ اعلان کر دیتے ہیں کہ اس سانحے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
جناب حاکم وقت! اللہ کا گھر جلا ہے،عبادت گاہ جلی ہے کسی مذہب کی بھی ہو، خون بہا ہے۔جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہو توپھر قیامت کے روز کس منہ سے عبادت گاہ کو لگی آگ مرغوں والے لڑکوں کے سر ڈال کر بچ جاؤ گے۔ اور پھرجب حسب سابق اقلیتوں کا خون ارزاں ہی رہنا ہے، جب اقلیتوں کی عباد ت گاہوں کو بم والوں سے اور کبھی شعلوں والوں سے بچانا ہی نہیں ہے، جب اقلیت والے اپنے گھر کو اور اپنی جان مال کو لٹا ،کر جو بھی بیان دیں اُسے جھوٹ کا پلندہ ہی قرار دے کر محلے کے مولوی اور ایس ایچ او صاحب کا بیان ہی معتبر ٹھہرنا ہے تو پھرکیوں لیتے ہو ریاست مدینہ کا نام؟
کیا حضرت محمدؐ اسی طرح سے انصاف کیا کرتے تھے؟ کیا ایسی ہی ریاست انہوں کھڑی کی تھی؟ اور کیا آپ ایسے ہی اقلیتوں کے حقوق قائم کیا کرتے اور اقلیتوں کے متعلق ایسے ہی رپورٹ لیا کرتے تھے؟انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کچھ خدا کا خوف کھاؤ ۔نواز شریف صاحب نے تو اپنے والد کے کھاتے میں اپنے گناہ ڈالے تھے مگر آپ تو اپنے گناہ نبی دو جہاں صلعم کی جھولی میں ڈال کراپنی حکومت کا آغاز کر رہے ہیں۔وہ احمدی کبھی چوکوں چوراہوں پر احتجاج نہیں کرتے سانحہ لاہور،سیالکوٹ،گوجرانوالہ تو ابھی کل کی بات ہے وہ لوگ صرف مرغی کو ٹھڈا مارنے پر فساد کے لئے باہر نکل آئے ہو ں گے۔
آخر پر میں آپ کو ریاست مدینہ کی نہیں،قرآن وحدیث کی نہیں،صحابہ و خلفائے راشدین کی بھی نہیں، بلکہ آپ کو اپنے چہیتے اور خیبر پختون خواہ کی پولیس کے سابقہ آئی جی جناب ناصر درانی کی ایک نصیحت یاد دلاتا ہوں جو اُنہوں نے اس صوبے سے اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت اپنے افسران سے جدا ہوتے ہوئے انہیں کی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ روزانہ لوگ آپ سے ملنے آتے ہیں ان میں وی آئی پی کے بندے بھی ہو تے ہیں اور وی وی آئی پی کے بھی۔ یہ وی وی آئی پی کے بندے وہ ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی سفارش نہیں ہوتی،بظاہر کمزور لوگ ہوتے ہیں اور ان کے پاس صرف اللہ کا کارڈ ہوتا ہے۔
تو سوچیں وی آئی پی کے بندے کا اگر کام نہ کیا تو صرف ٹرانسفر ہو گی مگر اگر وی وی آئی پی والے سے اچھا سلوک نہ کیا تو پھر سوچو اگر اُس نے اوپر شکایت لگا دی کہ میں تو تیرا نام لے کر گیا تھا مگر اُس نے تو سنا ہی نہیں،اُس نے جھڑک دیا، یا اُس نے کرسی تک نہیں دی،اور پھر سوچو اگر اُس نے سزا نہیں دی تو اس کا مطلب ہے مہلت دی ہوئی ہے اور اگر میں اپنی مہلت کی توسیع کرتا گیا تو پھرایک دن فارغ ہو جاؤں گا‘‘ ۔
سو یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی مہلت کی توسیع کرتے ہیں یا آگے بڑھ کر انصاف کا دامن تھام لیتے ہیں کیونکہ یہ ایک ازلی حقیقت ہے کہ ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا کی زمین پر ظلم کرتے چلے جائیں اور بچ جائیں۔ ایک دن حساب دینا ہو گا‘‘۔
♦
2 Comments