اخلاقی فتح یا ’’اسلامی تشدد کاخوف‘‘ ؟

طارق احمدمرزا

بی بی سی اردو کے مطابق ہالینڈ میں انتہائی بائیں بازوکے قانون ساز گیرٹ وائلڈرنے قتل کی دھمکیوں اور دوسروں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے سبب پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔گریٹ وائلڈرنے اپنے بیان میں کہا کہ ’’اسلامی تشددکے خطرات کے سبب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کارٹون بنانے کامقابلہ نہیں ہوگا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس مقابلے کے ذریعے دوسروں کو بھی خطرات سے دوچار نہیں کرنا چاہتے‘‘۔

اسلام مخالف رجحانات رکھنے والے گیرٹ وائلڈر کو اپنے نظریات کے سبب قتل کی دھمکیاں ملی ہیں اور انہیں خصوصی حفاظتی تحویل میں رہنا پڑتا ہے۔پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کا یہ مقابلہ ہالینڈ کی پارلیمان میں منعقد ہونا تھا۔(بی بی سی اردو۔پوسٹ نمبر45363620)۔

اس سے قبل گیرٹ وائلڈر پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے والاایک شخص گرفتار کیاگیا تھا جو مبینہ طورپر پاکستانی نژادبتایا جاتا ہے۔ مقامی اخبارات کو انٹرویودیتے ہوئے وائلڈرنے بتا یا کہ اسے ہالینڈ کی انسداد دہشت گردی کے سپیشل یونٹ نے اطلاع دی کہ پاکستان کے ایک مذہبی رہنما نے تمہارے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کیاہے اور تمہارے سر کی قیمت بھی مقررکی جاچکی ہے۔جس کے بعدہالینڈ میں ایک شخص پکڑا بھی گیا ہے جس نے مبینہ طورپر اسکے قتل کاپلان تیارکررکھا تھا۔قتل کی اس قسم کی بے شماردھمکیاں اسے مل چکی ہیں جس کے بعد اس نے پیغمبراسلام کے کارٹونوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کافیصلہ کیا۔

ہالینڈ کی حکومت نے جہاں گیرٹ وائلڈرکی سوچ اورحرکات سے اظہارلاتعلقی ظاہرکرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قراردیا ،وہاں اپنے شہریوں کے لئے پاکستان کے سفرکے حوالے سے ریڈ الرٹ جاری کیاکہ پاکستان ڈچ شہریوں کے لئے محفوظ جگہ نہیں۔اسی طرح افغانستان میں تعینات نیٹوافواج میں شامل ڈچ فوجیوں کے لئے سوائے اشد ضرورت کے اپنے کیمپوں سے باہر نکلنے پر بھی پابندی لگادی تھی کیونکہ مبینہ طورپر طالبان کی طرف سے انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
https://nltimes.nl/2018/08/31/wilders-calls-mohammed-cartoon-contest-threat
https://www.dutchnews.nl/news/2018/08/wilders-calls-off

اخبارات کے مطابق مبینہ دھمکیوں کے بعدڈچ پورٹ اینڈ ڈریجنگ سیکٹرکے ایک ٹریڈ مشن کادورہ پاکستان بھی منسوخ کردیا گیا ہے جو اس سال نومبر میں ہونا تھا۔

ادھر پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پیغمبر اسلام کے کارٹون مقابلہ کی منسوخی کے اعلان کوایک ’’اخلاقی فتح‘‘قراردیا ہے۔ حکومت پاکستان نے یہ معاملہ یو این او اور او آئی سی میں اٹھانے کا عندیہ دیا تھا۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ فتح اخلاق کی ہوئی ہے یا قتل کی دھمکیوں کی۔
واضح رہے کہ گیرٹ وائلڈرنے اس کارٹون مقابلہ کا اعلان اس سال جون میں کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اب تک انہیں تقریباًدوسوکارٹون موصول ہو بھی چکے ہیں۔

ان تین مہنیوں میں پاکستان کے جملہ غیور مسلمان اور ان کے سیاسی ومذہبی رہنمابمع میڈیاسب کے سب ا لیکشن بخارمیں مبتلا تھے ۔انہیں اسلام سے زیادہ اسلام آبادخطرے میں نظرآرہا تھا۔ اسلامی شدت پسندوں کوبھی کسی مبینہ شاتمِ رسول سے زیادہ بے گناہ اکرام اللہ گنڈہ پور اور انکے کئی ساتھیوں، معصوم ہارون بلور اور ان کے کئی ساتھیوں اور کوئٹہ میں لگ بھگ ڈیڑھ سوبیگناہ پاکستانیوں کا عین الیکشن کے دنوں میں خون بہا کرزیادہ تسکین محسوس ہوئی تھی۔

سوشل میڈیااوراسی طرح اخبارات ورسائل میں دبے دبے اس بات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ کیا پیغمبراسلام کی ذات اور ان کا مقام کارٹون بناکرکم کیا جاسکتا ہے؟۔اس ایشوپر اپنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔خود ہمارے بہت سے اعمال توہین رسالت کے زمرے میں نہیں آتے؟۔ جب ہم خود ٹھیک ہو نگے تو کسی کواس قسم کی دلآزارحرکت کرنے جرأت ہی نہیں ہوگی۔ 

ہالینڈ کی حکمران جماعت کے ایک منسٹر کا کہنا ہے کہ گریٹ وائلڈر دراصل ایک ناکام سیاستدان ہیں،وہ اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں اور اس قسم کے ڈرامے رچاکر سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انہیں لفٹ نہ کروائی جائے۔

وزیرخارجہ جناب شاہ محمودقریشی کی طرف سے اس معاملہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا اعلان بہرحال قابل توصیف ہے۔ انتظار ہے کہ وہ کب اور کس موقع پر اس پر عملدرآمد فرمائیں گے تاکہ ہمیشہ کے لئے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کردی جائے۔

سنہ 1950 کی بات ہے،امریکہ کے ایک ٹی وی پروگرام میں یو این او کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل مسٹر کوہن نے ایک ایسا جملہ ادا کیاجوتوہین رسالت کا ایک پہلو لئے ہواتھا۔ اس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ سرمحمدظفراللہ خان نے باقاعدہ تحریری طور پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ مسٹرکوہن کا یہ جملہ بے بنیادہے اور یہ مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنے کا موجب ہوا ہے ۔خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ یہ بیان دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم، جو مہذب دنیا کی نمائندگی کرتی ہے،کی انتہائی اعلیٰ اور ذمہ دار شخصیت کی طرف سے آیا ہے ،اس کے اثرات اور بھی زیادہ گہرے اور منفی ہو سکتے ہیں۔آپ نے وضاحت کی کہ اسلام تمام انبیاء علیھم السلام کے احترام کی تلقین کرتا ہے اور مسٹر کوہن نے مسلمانوں کے جذبات پرجو حملہ کیا ہے وہ بجا طورپر تشویشناک ہے‘‘۔ 

آپ کا یہ تحریری احتجاج پڑھ کر مسٹرکوہن نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اورمعافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ سرظفراللہ کے شکرگزارہیں جنہوں نے احسن انداز میں ان کی غلطی کی نشاندہی فرمائی ہے،جوان سے لاعلمی کے نتیجے میں سرزد ہوئی۔(سول اینڈ ملٹری گزٹ۔20اکتوبر 1950 )۔

گیرٹ وائلڈرنے نہ تو اپنی غلطی تسلیم کی ہے نہ ہی معافی مانگی ہے ، صرف ’’ اسلامی تشدد‘‘ کاخوف ظاہر کیا ہے ۔

کیا اسی کو کہتے ہیں اخلاقی فتح ؟۔

3 Comments