حبیب شیخ
کچھ دن پہلے ٹورونٹو میں درجہ حرارت 34 ڈگری تھا اور چبھتی ہوئی دھوپ کی شدّت عروج پر تھی۔ میں ایک مشہورِ زمانہ فاسٹ فوڈ کمپنی کی دکان پہ آدھے لیٹر پانی کی بوتل لینے کے لئے گیا ۔ وہاں پر کام کرنے والی ملازمہ نے اس کی قیمت 2.85 ڈالرز بتائی۔ قیمت سن کر میں چونک گیا اور اس ملازمہ کو سمجھایا کہ کینیڈا میں پانی کی کمی نہیں ہے تو کیوں اس پانی کی قیمت پٹرول کی قیمت سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پانی انسان کا بنیادی حق ہے اس لئے اس کو کم سے کم منافع پر بیچنا جاہئے ناکہ ایک پیاسے انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر 0.25 ڈالر کی بوتل کو دس گنا قیمت سے بھی زیادہ میں بیچا جائے۔ اس ملازمہ نے مجھ سے اتّفاق کیا لیکن ظاہر ہے قیمتوں کا تعین اس کے اختیار میں نہیں تھا۔
یہ روش سرمایادارانہ ملکوں میں عام ہے۔ کئی تفریحی مقامات پر پانی کی بوتل اندر لے جانا منع ہے اور وہاں پانی کی بوتل 3.50 ڈالرز میں بیچی جاتی ہے۔ اس معاملے میں سرکاری ادارے بالکل خاموش ہیں ۔ ان کا جواز یہ ہے کہ کسی بھی شے کی قیمت کا تعیّن اس کی فراہمی اور مانگ کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیاس کی وجہ سے مرتے ہوئے انسان سے پانی کی بوتل کی قیمت 1000 ڈالرز مانگی جائے تو وہ بھی درست ہے۔
چند سال قبل عجیب صورتِ حال برّاعظم جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں ہوئی۔ وہاں پر دو پرائیویٹ کمپنیوں نے ایک امریکی کمپنی کے ساتھ مل کر پانی مہیّا کرنے کے انتظامات کو خرید لیا اور اس کے بعد پانی کے نرخوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ۔ ایکواڈور کے لوگ بارش کے پانی کو استعمال کے لئے جمع کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں نے سرکار سے قانون بنوا لیا جس کے تحت بارش کے پانی کو جمع کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ عوام کے پرزور احتجاج اور کئی جانوں کی قربانیؤں کے باعث یہ قانون واپس لے لیا گیا اور عوام النّاس کو دوبارہ سرکاری ادارے پرانے نرخوں پر پانی مہیّا کرنے لگ گئے۔
اسی طرح یورپ کے کچھ شہروں میں سیاست دانوں کی ملی بھگت کے بعد پانی کی فراہمی کو نجی شعبے میں دے دیا گیا تو کچھ ہی سالوں میں پانی کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ لوگوں کے احتجاج اور شور مچانے پر پانی کے اداروں کو سرکار نے واپس اپنے زیرِ انتظام لے لیا لیکن سرکار کو تاوان کے طور پہ نجی کمپنیوں کو بھاری رقم ادا کرنی پڑی۔
چند سال قبل یونان کے ایک جزیرے ہدرہ جانے کا اتّفاق ہؤا۔ اس چھوٹے سے جزیرے میں صرف دو چار دکانیں تھیں۔ یونان کی گرمی اور سیّاحوں کی کشتیؤں کی مسلسل آمد و رفت کے باوجود پانی کی بوتل کی قیمت آدھ یورو تھی، یہ وہی قیمت جو ایتھنز میں ہر جگہ لی جاتی ہے۔ اگر ہدرہ کے یہ دکاندار چاہتے تو سیّاحوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کئی گنا قیمت وصول کر سکتے تھے۔ لیکن یہ لوگ سرمایا داری کے آداب سے ناواقف ہیں اور اسی لئے جرمنی اور فرانس کے سرمایہ کار ان کی “مدد” کے لئے دوڑ رہے ہیں۔
کچھ دہائیاں قبل پاکستان کی “عوامی” حکومت کے وزیرِ خزانہ نے خسارے کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اس بجٹ میں قومی سطح پر صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ اس کی ضرورت اس لئے نہیں محسوس کی گئی کیونکہ خود وزیرِ خزانہ کے سامنے فرانس سے برآمد شدہ پانی کی بوتل موجود تھی۔
ایک مخصوص طبقے کے لئے پانی کی بوتل بھی ایک برانڈ ہے جب کہ غریب علاقوں کےلوگ محلے کے واحد نلکے کا آگے بالٹیوں کی قطار لگائے گدلےپانی کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں پچاس فیصد سے زیادہ بیماریوں کی وجہ گندے پانی کی فراہمی ہے لیکن ناخدا کے پاس تو صاف ستھرا نسلے یا فرانسیسی پانی کی دستیابی کا انتظام موجود ہے۔ اگر یہ رہنما صاف پانی کی رسائی اور گندے پانی کی نکاسی کا بنیادی حق ہر فرد کو مہیّا کردیں تو یہ ملک کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔
صاف پانی کی رسائی اور گندے پانی کی نکاسی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگر اس بنیادی حق کا تحفّظ نہیں کیا گیا تو نجی ادارے ساری دنیا میں اس کو پامال کرتے رہیں گے اور پانی کی رسائی اور نکاسی کو ، جہاں جہاں بس چلے گا، کئی گنا مہنگا کرتے رہیں گے ۔ اس طرح یہ ان علاقوں کو نظر انداز کریں گے جہاں کے باسی پانی کی منہ مانگی قیمت ادا نہیں کر سکتے۔
♦
3 Comments