جسٹن میرے دوست ہیں۔ جسٹن دنیا میں امن کے متلاشی ہیں اور دنیا کے ہر انسان کے لیے کسی بھی امتیاز کے بغیر امن اور سکون چاہتے ہیں۔ الجیریا، ایتھوپیا اور تنزانیہ سمیت کئی ممالک میں امن اور ترقی کے لئے وہاں کی عوام کے ساتھ مل کر تین سال رضاکارانہ طور پر کام کیا۔
جسٹن کو کرہ ارض کو جنت بنانے کی دیوانگی لاحق ہے۔ تعلق برنی سینڈرز کے سٹیٹ ورمونٹ سے ہے۔ وہی برنی سینڈرز جو یہودی ہیں لیکن اس کے باوجود ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں امریکہ میں آباد مسلمانوں کے پسندیدہ جبکہ اسرائیل کے لئے ناقابل قبول تھے۔ ہیلری سے ہار گئے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے ہروائے گئے تھے۔
جسٹن اپنے شہر بریٹلبرو کے کونسل کے سب سے کم عمر ترین منتخب نمائندے ہیں اور اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔ جسٹن نے مجھے انتخابات کے متعلق لکھا ہے کہ کسی پاکستانی پولیٹیکل گروپ میں انہوں نے پڑھا کہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔ انہوں نے پاکستانی عوام کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ کرے، سارا انتخابی عمل بہ خیر و خوبی تکمیل پائے اور پاکستان کے لوگوں کے لئے بہتری لائے۔
ڈاکٹر رِجینا میری ستر سالہ دوست امریکی ریاست میساچوسٹ سے تعلق رکھتی ہے اور پوری دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ دادی بن چکی لیکن اتنی متحرک کہ دوشیزائیں ان کے آگے پانی بھرتی دکھائی دیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مستونگ دھماکوں کا سن کر فوراً مجھے ایمیل بھیج دی۔ کافی پریشان تھی اور میری خیریت دریافت کر رہی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ یہ کتنا عجیب ہے کہ جس ووٹ کو امریکہ میں بڑی تعداد ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے اور جسے کاسٹ کرنے کے روادار نہیں، اسی حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں لوگوں کو اپنی جان سے جانا پڑا۔
یوکرائن میں عرصہ دراز سے مقیم میرے بھائی نے گھر فون کرکے مجھے بالواسطہ پیغام دیا ہے کہ پی ٹی آئی اور بالخصوص پرویز خٹک صاحب پر تنقید بند کردوں اور اپنی فیملی کا بہتر سوچنا شروع کروں۔ میرے بھائی کو خوف لاحق ہے کہ طاقتوروں کے انتقام کو للکارنے کے بجائے خاموشی اچھی۔
اسی قسم کا مشورہ میرے عزیز دوست زمان اقبال نے سعودیہ سے فون کرکے دیا۔ زمان اقبال چارٹرڈ اکاونٹ ہیں اور مصروف ترین زندگی گزار رہے ہیں۔ ان سے رابطہ کرنا بعض اوقات تو واقعی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن دو دن میں اس نے چار مرتبہ رابطہ کرنے کی ناکام کوشش کی تو مجھے فکر لاحق ہوئی کہ اللہ خیر کرے۔ بالآخر رابطہ ہوا تو زمان نے کہا ’یار گولی مارو، اندھوں کو آئینہ دکھانے کا کیا فائدہ؟ ، چھوڑ دو سب کو اپنے حال پر۔ اپنے لیڈرز کو دیوتا سمجھنے والے پاکستانی نوجوان پر وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ ‘
زمان اقبال سے تو بات ہوگئی، کچھ وہ مان گئے اور کچھ میں۔ اپنے بھائی سے بھی بات کرکے معاملہ سلجھ ہی جائے گا لیکن ایک بات جو دل و دماغ کو چین لینے نہیں دے رہی کہ نئے پاکستان میں خوف کے یہ بڑھتے سائے کیوں امڈ آئے؟ انسان کی بہترین صلاحیتیں آزادی میں بروئے کار آتی ہیں اور آزادی خوف سے پاک فضاء کو کہتے ہیں۔ آزاد معاشروں میں صرف اور صرف قانون کا خوف ہوتا ہے۔ قانون کا خوف کسی کو لکیر پار کرنے نہیں دیتا اور یوں وہ احساس جنم لیتا ہے جس کو آزادی کہتے ہیں۔
میرا اصل مسئلہ اپنے امریکن رفقائے کار اور دوستوں کو جوابی ای میلز لکھنا ہے۔ اگر چہ دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی سوال نہیں پوچھا کہ مہذب لوگ خوامخواہ سوالات نہیں پوچھتے لیکن الیکشن کے متعلق کچھ نہ کچھ تو بتانا ہے ان کو۔ اب کروں تو کیا کروں؟ ایک گروہ کے نزدیک حالیہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین الیکشنز ہیں۔ کسی الف لیلوی کہانی میں پائے جانے والی جھیل کے صاف اور شفاف نیلے پانیوں کی طرح۔ دوسرا گروہ اس کو گردوغبار سے اٹا الیکشن قرار دیتا ہے، جس میں سب کچھ تھا لیکن شفافیت نہیں۔
ایک اور رابطہ جس نے میری پریشانی کو دس سے ضرب دے دی ہے اور یقین مانیے دل طرح طرح کے ان گنت اندیشوں سے بھر دیا ہے، میرے ایک دوست کی طرف سے ہوا ہے۔ میرے یہ دوست خان صاحب کے دیوانوں میں شمار ہوتے ہیں، خان صاحب کے حسن کی شوخیاں جب کچھ زیادہ ہی بڑھیں تو میرے دوست کی عشق کی گرمیاں ماند پڑ گئیں لیکن عشق کی حدت اب بھی برقرار ہے۔
یہاں ان کا نام لینا مناسب نہ ہوگا لیکن اتنا بتاتا چلوں کے امریکیوں کے ساتھ پاکستان میں براہ راست کام کرتے ہیں اور اعلی پائے کے اہلکاروں تک ان کی رسائی ہے۔ فون کیا تو نہایت پریشان تھے۔ کہنے لگے کہ خان صاحب کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ میں نے پوچھا کس سے اور کیوں کر؟ بتانے لگے کہ عمران خان کی زندگی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر ہے۔
عمران خان کا وزیراعظم بننا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث ہے کیونکہ خان صاحب کم ہی کسی کی سنتے ہیں اور اگر اپنی بات پر اڑ جائے تو ان کو دباؤ میں لانا آسان نہیں ہوتا۔ خان صاحب کے ساتھ معاملات کرنا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ڈراونا خواب ہے اور عالمی بساط کے کھلاڑیوں کو خان صاحب کا طالبان کے لئے نرم رویہ اور علی الاعلان ان کی حمایت میں بیانات دینا الیکشن جیتنے کے بعد کچھ زیادہ ہی چھبنے لگا ہے۔
انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے لئے خان صاحب کا وزیراعظم بننا اتنا پریشان کن نہیں جتنی یہ بات کہ خان صاحب کو وزیراعظم بننے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور آشیرباد شامل ہے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خان صاحب کو فراہم کردہ کُمک اس بات کا ثبوت ہے کہ خان صاحب کی حکومت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلے گی جو کہ اس خطے میں امریکہ کی سربراہی میں جاری انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ خان صاحب سمیت اس ملک کے ہر باشندے کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ کرے کہ خان صاحب کی حکومت بہ خیرو خوبی قائم ہو اور اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو۔ اے خدائے بزرگ و برتر اس ملک اور اس کے باسیوں پر اپنا کرم کر اور اِن کو حکمت و بصیرت کی دولت عطا کر تاکہ یہ ملک کے مفاد میں بہترین فیصلے کر سکیں۔
♦