مودی سرکار! مکہ اور مدینہ کوآزادکروائیں

طارق احمدمرزا

صدائے صوفیائے ہندنامی تنظیم نے بھارتی صدرمسٹرپرناب مکھرجی،وزیراعظم نریندرامودی،وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ ،وزیرخارجہ سشماسوراج ،گورنراترپردیش شری رام نائیک ،چیف منسٹراترپریش اکھیلش سنگھ یادیو،یونیسکو میں بھارتی نمائندہ مس کمبوج صاحبہ وغیرہ کی خدمت میں ایک میمورنڈم پیش کرتے ہوئے پرزورمطالبہ کیا ہے کہ ارض حجاز،خصوصاً مکہ اور مدینہ کو سعودی وہابی سلفی آمریت سے آزاد کروایا جائے۔ 

میمومیں بتا یا گیا ہے کہ مسجدنبوی اور خانہ کعبہ خطرے میں ہیں جن پر سنہ 1924 میں وہابی طالع آزماؤں کے ایک کلٹ نے غاصبانہ قبضہ کرلیا تھا۔وہابی سنی نہیں،اصلی سنی صوفی ہیں۔اگروہابی ظلم اور جبرواستبداد کی راہ نہ اپناتے تویہ کلٹ خودبخود ختم ہوجاتا۔آج سعودی بادشاہت کے زیرتسلط علاقوں کے 98 فیصد تاریخی آثار کونابودکردیا جاچکا ہے جو ایک عالمی ورثہ تھے۔

بھارت کی ہندو سرکار کی خدمت میں پیش کردہ اس میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ مکہ اور مدینہ کوموجودہ حکمرانوں سے آزادکرواکر وہاں صوفی مساجد اورصوفی مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے۔تاریخ سے ثابت ہے کہ شیعہ اور سنی اکھٹے رہ سکتے ہیں لیکن وہابی نہیں۔

انگریزی زبان میں تحریر شدہ تقریباً بارہ پیراگراف پر مشتمل اس میمورنڈم کے آخر پر ’’مکہ شریف کوآزادکرواؤ!،مدینہ شریف کوآزاد کرواؤ!،حجاز کوآزادکرواؤ!‘‘ کامطالبہ نما نعرہ لکھ کر اسکے نیچے صدائے صوفیائے ہندتنظیم کے صدر(سیدبابراشرف)،سیکرٹری (عمران قادری)،ترجمان(خطیب السلام قادری) کے علاوہ شہرقاضی کانپوردیہات(مولانااویس اختر)،صدر پیغام صبح ادب(مولاناحمادانور)،یوتھ پریذیڈنٹ آل انڈیا محمدی مشن لکھنؤ،صدرتحریک عاشقان اہل بیت(غلام محی الدین) ودیگرکے دستخط موجودہیں۔
http://www.islamicpluralism.org/2586/indian-sufis-call-for-liberation-of-makkah

واضح رہے کہ بھارتی وزیرعظم نریندرمودی اس میمورنڈم کے پیش کئے جانے سے چندماہ قبل سعودی عرب کے تاریخی دورے پہ تشریف لے گئے تھے جہاں انہیں سعودی عرب کے اعلیٰ ترین سول اعزازآرڈر آف عبدالعزیز السعود سے نوازاگیا تھا۔یہ اعزازپانے والوں میں ڈونلڈٹرمپ،تھیریسامے،بل کلنٹن،جارج ڈبلیو بش،بارک اوباما،ڈیوڈ کیمرون،ولادیمیر پوتن وغیرہ شامل ہیں۔

قارئین کرام اس میمورنڈم کو پڑھ کر راقم کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ کیا صوفیائے کرام و مشائخ عظام ہندکو دنیا کے لگ بھگ 57مسلم ممالک کے سربراہان اور ان کے زیرتسلط کوئی ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے کسی قسم کی مدد کی امیدنہ تھی جو ہندواکثریت پر مشتمل ایک ملک کے غیرمسلم ہی نہیں بلکہ ’’مشرک‘‘ نیتاؤں کے حضوراس قسم کا ’’میمورنڈم‘‘ پیش کیاگیا،جو اصل میں مطالبہ ہے لیکن میمورنڈم کا نام دے کر مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

خیال آیا کہ شاید اس لئے کہ صوفیائے کرام ہند سمجھتے ہو نگے کہ چونکہ مودی جی کو سعودی عرب کااعلیٰ ترین ایوارڈمل چکا ہے اس لئے وہ اپنی اس غیرمعمولی حیثیت اور مقام سے فائدہ اٹھا کرمکہ اور مدینہ کو مبینہ غیر قانونی قبضہ سے واگزارکرواکر انہیں ہندوستانی صوفیوں کے حوالے کردیں گے جوفوراً ہی طبلوں اور ہارمونیم سے لیس ہوکروہاں پہنچ جائیں گے اور پھر سارا سارادن اورساری ساری رات گھنگھروباندھے’’میں خواجہ پیا کی دیوانی‘‘کی فلک شگاف تانوں پہ رقص کرنا شروع کردیں گے۔اور پھر پاکپتن شریف اور داتا دربار سے گوٹاکناری لگے سرخ ریشمی متبرک دوپٹے منگواکر ان پر مودی جی کی درازیِ عمرکی دعائیں پڑھ پڑھ کرپھونکاکریں گے۔

اس سے پہلے کہ کوئی صوفی راقم کو بھی وہابی سمجھ کر اس پرکفرکافتویٰ لگا دے،واضح کردوں کہ میں خود بھی تصوف کاایک ادنیٰ طالبعلم ہوں اور’’حقیقی ‘‘صوفیاء کرام کا بیحد معتقد ہوں جن کا مکہ یاتو ان کے دل میں ہوتا ہے اوریاپھر دل مکہ میں ۔(امید ہے کہ لبرل اور روشن خیال قارئین ’’وسیع ترمفاد کی خاطر‘‘میرے اس فقرے کو برداشت یا نظرانداز کرلیں گے!)۔

قارئین کرام یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو’’امت ‘‘کودرپیش اہم اور فوری مسائل کے حل کے لئے آج ہی نہیں بلکہ ماضی میں بھی ہندونیتاؤں سے مددحاصل کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتی تھی۔تحریک خلافت کو ہی لے لیں جس کے نہ صرف جلسے مہاتما گاندھی جی کی زیرصدارت منعقد ہوا کرتے تھے بلکہ اس تحریک خلافتِ اسلامیہ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاسات کاا یجنڈہ تک گاندھی جی کے مشوروں اور منظوری سے فائنل کیاجاتاتھا۔تحریک خلافت کے اجلاسات میں گاندھی جی کی جے کے نعرے لگا کرتے تھے،جواباً گاندھی جی خلافت اسلامیہ کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کی یقین دہانی کرتے اور اس کے بدلے ہندوستانی مسلمانوں سے تحریک موالات میں بھرپورحصہ لینے کاعہدلیاکرتے تھے۔یہ سب حقائق آن ریکارڈہیں۔ 

یہ خوش کن انکشاف بھی کرتا چلوں کہ وزیراعظم عمران خان تو پاکستان بننے کے ستر برس بعد اس ملک میں ریاست مدینہ قائم کرنے کامژدہ سنا کر اس پرفخر کااظہار کرتے پھر رہے ہیں،بھارتی مسلمان تویہ منزل کب کی پاچکے ہیں۔چنانچہ گزشتہ بھارتی انتخابات سے قبل ہفت روزہ ’’نئی دنیا ‘‘ (اشاعت 7 1 تا 23 مارچ 2014 ء صفحہ 13 ) نے بتایا کہ ’’ جس طرح مدینہ منورہ میں مسلمان اور یہودیوں کے درمیان معاہدہ امن ہوا تھا اسی طرح ہندوستان کی صورتحال بھی ہے ‘‘۔ یہاں میثاق مدینہ کاذکرکیاگیا ہے جوبقول شخصے ریاست مدینہ کانقطہ آغازتھا۔

اس پس منظر میں یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں کہ ماضی میں ہندوستانی مسلمان اگر گاندھی جی سے خلافت بحال کروانے میں مدد کی التجاکرسکتے تھے توآج مودی جی ،سشما سوراج جی وغیرہ کی خدمت میں مکہ اور مدینہ کو آزادکروانے کامیمورنڈم بھی پیش کرسکتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ فی زمانہ بھارتی مسلمان ہی نہیں دنیا میں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں وہ اپنے معاملات سلجھانے کے لئے غیر مسلموں سے ہی رجوع کرتے اورتصفیہ کے لئے انہی کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ایران عراق جنگ ہو،عراق کویت جنگ ہو،سعودی عرب یمن جنگ ہو،افغانستان بمقابلہ روس جنگ ہو،شام ترکی جنگ ہو،شام لبنان جنگ ہو،شریف مکہ بمقابلہ آل سعود جنگ ہو،حتیٰ کہ حماس وحزب اللہ بمقابلہ الفتح جنگ ہو،یا لندن میں دیوبندی بمقابلہ بریلوی اور اسی طرح ڈیوزبری(انگلینڈ) میں بریلوی بمقابلہ تبلیغی جماعت جنگ ہو،ڈیڑ ھ ارب مسلمان باہمی قضیئے نبٹانے کے لئے اپنوں کی بجائے غیروں کی منتیں ترلے کرتے ہی نظرآئیں گے۔

بات کرو تو کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شیطان چمٹا ہوا ہے۔میں سوچتا ہوں یہ شیطان سکینڈے نیوین ممالک ،سویڈن اور ناروے کے ساتھ کیوں نہیں چمٹ سکاجہاں بقول عمران خان’’عمر لاء ‘‘نافذہے؟۔
مسلمانوں کوباہمی تفرقہ اور فساد کی روش کو خودخیرباد کہناہوگا۔وگرنایادرہے کہ پرناب مکھرجی،نریندرامودی،اکھلیش سنگھ یادیو،سشما سوراج اورمِس کمبوج کواور بھی بہت سے کام ہیں !۔

Comments are closed.