پاکستانی معیشت کا گھوڑا بھی نرالی قسم کاہے۔جتنا مرضی چارہ ڈالو،چبا جاتاہے، اس کے باوجود نحیف اورلاغرنظرآتا ہے۔اس پہ مستزادیہ کہ جتنالاغرہے،خلافِ توقع اس سے کہیں زیادہ سرکش اوراڑیل مزاج بھی ہے ۔گزشتہ ستر برسوں سے مقروض پاکستانی قوم کے پیٹ میں خسارے کی دولتی مارنا نہیں بھولتا ۔اپنی پیٹھ پہ کاٹھی اور سوار کوتو برداشت کیا کرنا،کسی کو اپنے منہ میں لگام بھی نہیں ڈالنے دیتا۔ہر حکومت کا ہر وزیر خزانہ غالبؔ کے مشہورشعر کا مصرعہ ثانیہ بطورعذر پیش کرکے اپنے ضمیر اورفقیرکو تسلی دے کر اپنے تئیں ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتاہے کہ اس گھوڑے کی :۔
نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں
لیکن اب جب کہ نئے پاکستان کے نئے متوقع وزیرخزانہ جناب اسد عمر ؔ صاحب کی باری آئی ہے تولگتا ہے کہ غالب ؔ کے اس شعر کا مصرعہِ ا ول’ ’رو میں ہے رخشِ عمر‘‘ بھی گنگنانے کی باری آگئی ہے،اس فرق کے ساتھ کہ اس مصرعہ میں ’’ عمر‘‘ سے مراد اسد عمرؔ کولیا جائے جن کا ارادہ اور دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کے اس اڑیل اور سرکش گھوڑے پہ اس طرح سے سواری کرکے سب کو حیران کر دینگے کہ نہ صرف ان کے پاؤں رکاب میں ہونگے بلکہ ان کے ہاتھ میں اس گھوڑے کی لگام بھی ہوگی۔
جناب اسد عمر صاحب نے یہ تو نہیں بتایا کہ گھوڑے پہ سواری کے لئے کاٹھی اوررکاب کہاں سے آئے گی تاہم یہ انکشاف ضرور کیا ہے کہ لگام سنگاپوری ماڈل کی ہوگی۔ چنانچہ اپنے ایک بیان میں آپ نے قوم کو بشارت دی ہے کہ وہ اپنی حکومت کے پہلے سو دن کے اندراندر پاکستان میں سنگاپور کی مالیاتی کمپنی ٹیماسک ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرز پر ایک ویلتھ فنڈ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دے گی۔آپ نے یہ بیان ایک طرف امریکہ کو جلی کٹی سناتے ہوئے اوردوسری طرف چھ ہفتوں کے اندر اندر آئی ایم ایف سمیت عالمی برادری سے بارہ بلین ڈالرسے زائد امدادمانگنے کے ممکنہ اعلان کے حوالے سے دیاتھا ۔
https://www.bloomberg.com/news/articles/2018-08-02/pakistan-to-decide-on-more-than-12-billion-bailout
سنگاپور کی ٹیماسک ہولڈنگ پرائیویٹ کمپنی کیاہے اور یہ سنگاپور کی معاشی ترقی میں کیاکرداراداکرتی ہے؟۔ مختصراً بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک انویسٹمنٹ کمپنی ہے جو 1974 میں سنگاپور حکومت نے قائم کی تھی ۔اس کی مالک وہاں کا فنانس ڈیپارٹمنٹ ہے جو فنانس منسٹری کے ماتحت ہے۔بجائے اس کے کہ حکومت مختلف تجارتی ادارے اور کمپنیاں مثلاً سنگا پور ائر لائن، سنگاپور ٹیلی کام وغیرہ خود چلائے ، انہیں حکومتی ملکیت سے الگ کرکے ٹیماسک کاحصہ بنادیا گیااورجس طرح ایک پرائیویٹ لمیٹڈ تجارتی کمپنی چلائی جاتی ہے ،اسے یہ جملہ ادارے چلانے کاحق تفویض کردیا گیا۔
اس کمپنی کو(جسے ایک ویلتھ فنڈ یا کارپوریشن بھی کہا جاتا ہے)یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے جہاں چاہے سرمایہ کاری بھی کر سکتی ہے،اور جو کاروباری ادارے یا کارخانے وغیرہ اس کے کنٹرول میں ہیں ان کے سارے یا کچھ حصص اندرون یا بیرون ملک فروخت بھی کر سکتی ہے۔
یہ کمپنی دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کی طرح قانونی دائرہ میں رہ کر اپنا بزنس چلاتی ہے۔اپنی آمدنی اور منافع پہ حکومت کو ٹیکس بھی اداکرتی ہے،باوجود اس کے کہ اس کی مالک ڈیپارٹمنٹ آف فنانس ہے۔
منسٹری آف فنانس کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ صرف ملک کی مالی اور معاشی ترقی کے لئے قواعد سازی اور پالیسی میکنگ تک محدود ہوگئی ۔سنگاپور ایرلائن،ڈی بی ایس بینک،میڈیا کارپ،سنگ ٹیل،ایس ٹی انجنئرنگ اور دیگر اداروں میں سٹاف کی تقرریوں،تنخواہوں،فنڈنگ،نفع ونقصان کا بار اٹھانا اس کی براہ راست ذمہ داری نہیں رہی۔یہ ٹیماسک ہولڈنگ کا کام ہے،اگر خسارہ ہو رہا ہے تو سٹاف کی چھانٹی کرے یا متعلقہ بزنس ہی بیچ دے اوراس رقم سے کوئی اور منافع بخش کاروبارشروع کرلے یہ ٹیماسک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز،فنانشل ایڈوائزرز وغیرہ کا ذمہ ہے،نہ کہ منسٹری کا۔
ٹیماسک ہولڈنگ کی مالیتی ساکھ اس وقت 308 بلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔امسال اس کمپنی سے حکومت کو ایک سوسات بلین ڈالر کی آمد ہوئی۔
https://www.temasek.com.sg/en/our-financials
اس کمپنی کا ہیڈ کوارٹرسنگاپور میں ہے جب کہ اس کی برانچیں بیجنگ،لندن،نیویارک،ممبئی اور دیگر شہروں میں قائم ہیں۔غیر ملکی کاروباری افرادبھی اس کمپنی میں انوسٹمنٹ کر سکتے ہیں اور ٹیماسیک خود بھی دنیا کے دیگر ملکوں میں انوسٹمنٹ کر کے پیسہ کما سکتی ہے۔
یہاں تک تو ٹھیک لیکن ’’مشتری ہوشیارباش‘‘کے تحت یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر کاروباری کمپنی کی طرح ٹیماسک ہولڈنگ کے بعض مالیاتی ایڈونچرناکامی کا بھی شکار ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک ایڈونچرتھائی لینڈ میں نئی حکومت کے قیام کے بعد وہاں کی زرعی صنعت کی ایک سکیم میں شِن کارپوریشن آف تھائی لینڈکو خریدکربھاری انوسٹمنٹ کرنا تھا۔یہ منصوبہ ایک فراڈ نکلا(یا یوں کہہ لیں کہ بہت سے گھپلوں کا شکار ہو گیا) جس کے نتیجے میں تھائی لینڈ کی حکومت کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا اور ٹیماسک ہولڈنگ کو بھی نقصان اٹھاناپڑا۔
اسی طرح کچھ اورناکام منصوبے اور سکینڈل بھی ٹیماسک کی شہرت پہ داغ ڈال چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبت،جنگ اور تجارت ایسی چیزیں ہیں جن میں ہار بھی ہوسکتی ہے اور جیت بھی۔بقول شاعر ’’اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ ۔بچت یہ ہوئی کہ ہر الزام ٹیماسک ہولڈنگ کے ڈائریکٹروں اور ایڈوائزروں یا بروکرزپہ ہی لگتا رہا نہ کہ فنانس منسٹرپہ۔
یہ بھی بیان کرتا چلوں کہ سنگاپور کے وزیراعظم صاحب نے ٹیماسک ہولڈنگ کے چیف ایگزیکٹیوآفیسر(سی ای او) کے عہدہ پہ اپنی اہلیہ محترمہ کومقررکیا تھا۔وزیراعظم نے قوم کو بتایا کہ ان کی اہلیہ کا تقرر اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر کیاگیا ۔ان کی اہلیہ اس عہدے پر پندرہ برس فائزرہیں۔ ان کا شمار دنیا کی 30 بااثر خواتین میں ہوتا ہے(فوربس)۔واضح رہے کہ موجودہ وزیراعظم سنگاپورکے بانی اور ہردلعزیز وزیراعظم جناب لی کوآن ییو(جواپنے نام کے مخفف ’’ ایل کے وائی ‘‘ سے پکارے اور یاد کئے جاتے ہیں) کے صاحبزادے ہیں۔
یہ خاندان 1965 میں آزاد سنگاپورکے وجود میں آنے سے اب تک ملک میں حکومت بھی کررہا ہے اور دیگرشعبہ جات بشمول بزنس پہ بھی چھایا ہوا ہے۔وزیراعظم کی ایک بہن ڈاکٹر ہیں اور نیشنل نیورو سائنس انسٹی ٹیوٹ چلاتی ہیں۔وزیراعظم کے ایک اور بھائی فوج میں اعلیٰ عہدے تک پہنچے،ریٹائر ہوکر سنگاپور ٹیلی کام کے سربراہ مقرر ہوئے جو اب ٹیماسک ہولڈنگ کا حصہ ہے۔اس بھائی کی اہلیہ نامی گرامی وکیل ہیں اور ایک کارپوریٹ لاء فرم میں بزنس پارٹنر ہیں۔
https://www.scmp.com/week-asia/politics/article/2098753
قارئین کرام سنگاپور کی موجودہ ترقی اور خوشحالی اس ایک حکمران خاندان کی مرہون منت ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ موروثی سیاست اور قیادت ملک کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے وغیرہ، وہ سنگاپور کی حکمران اس ’’لی‘‘ فیملی کو دیکھ لیں۔عمران خان صاحب اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ جس دن میرے بیٹوں میں سے کوئی پی ٹی آئی کا عہدیدار بنا اس دن میں پی ٹی آئی نہیں سیاست ہی چھوڑ دونگا۔ میرے مطابق تو یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ بیان ہے۔ آخر آپ جہانگیر ترین صاحب کے صاحبزادے کو پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہو ہی گئے تھے ،یہ کہتے ہوئے کہ کیا کریں اس سے زیادہ موزوں امیدوار سامنے آیا ہی نہیں۔
عمران خان صاحب کے سامنے سب سے بڑی مثال تو یہ ہونی چاہیئے کہ پیغمبر اسلام ؐ کے وصال کے بعد جو پہلے چار افراد مسندِخلافت پہ متمکن ہوئے ان میں سے دو توپیغمبرِ اسلامؐ کے داماد تھے اور دو آپؐ کے سسر ۔ان رشتوں کے علاوہ آپ سب کاموروثی قبیلہ بھی ایک ہی تھا۔
موروثی سیاست پہ قولی تنقیداور عملی تائید کرنے والے عمران خان کے چہیتے اور ہم سب کی امیدوں کے مرکزمتوقع وزیرخزانہ اسد عمر صاحب آج نئے پاکستان کی معیشت کے اڑیل گھوڑے کو جس سنگاپوری ماڈل کی لگام دینا چاہتے ہیں وہ ایک موروثی سیاست کرنے والے خاندان کی متعارف کردہ ہی تو ہے۔ سنہ 2016 کے بلا تفریق ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس پر سنگاپور کا نمبر دنیا بھر میں 5 واں جبکہ پاکستان کا147 واں ہے۔
پاکستان میں اس بدحالی کا ذمہ خاندانی اور موروثی سیاست بتایا جاتا ہے۔ سنگاپور کی ترقی کا سہرا وہاں کی موروثی اور خاندانی سیاست کے سر سجایا جاتا ہے۔فرق کیا ہے؟۔فرق امانت،دیانت اور صداقت کا ہے۔ واضح رہے کہ ان تین صفات سے متصف ہونے کے لئے مذہب سے وابستگی ضروری نہیں۔یہ ’یونیورسل‘ صفات اور عادات ہیں۔
موروثی سیاست اور سیادت یا قیادت بجائے خود بری یااچھی نہیں ہوتی۔میرے ایک بزرگ دوست کا کہنا ہے کہ گل کچھ وی نیءں۔گل صرف ایہہ ہے کہ پاکستانی ٹبر چورنکلا تے سنگاپوری ٹبرہورنکلا !۔
قارئین کرام ،اسے کہتے ہیں کہ زبان خلق کو نقارہِ خدا سمجھو۔ چندماہ قبل مجھے سنگاپور جانے کااتفاق ہوا۔ایک عمررسیدہ ٹیکسی ڈرائیور نے بہت سی باتیں پوچھی بھی اور بتائیں بھی۔ایک بات یہ بتائی کہ اگر سنگاپور کو ’’ایل۔ کے۔ وائی ‘‘اور ان کے بعد ان کا بیٹا بطوروزیراعظم میسرنہ آتا توآج سنگاپورین عوام تین ٹائم کیکڑے کھانے اور جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہوتے۔
دوسری (اورحیران کن )بات جواس نے کہی وہ یہ تھی کہ سارے راستے میں دیکھتے جاؤ ،جہاں کوئی پولیس والا یا پولیس کار نظرآئے ، گنتے جانا۔ ائرپورٹ کے قریب واقع بزنس ڈسٹرکٹ سے لیکر گنجان آباد سٹی سنٹر میں واقع مشہور ’’مصطفیٰ شاپنگ سینٹر‘‘ تک میری گنتی ’’زیرو‘‘سے آگے نہ بڑھ سکی !۔
تیسری (اورمزیدحیران کن)بات اس نے یہ بتائی کہ سڑک پرگند پھینک کریا اوورسپیڈنگ کرکے دیکھو ،تین سے پانچ منٹ کے اندر اندر پولیس کو اپنے سامنے موجود پاؤگے!۔
آخر پر یہ عرض ہے کہ سنگاپور کی معیشت کادارومدار محض ٹیماسک ہولڈنگ پر ہی نہیں۔حکومت کے ذرائع آمدن اور بھی ہیں۔ان میں گڈز مینوفیکچرنگ انڈسٹری بھی ہے جس کی نگرانی منسٹری آف ٹریڈز اینڈ انڈسٹری کرتی ہے۔سنہ 2018 کے پہلے تین مہنیوں میں اس کی شرح ترقی تقریبا چار فیصد رہی جو ایک ریکارڈ ہے۔مینوفیکچرنگ کے علاوہ سروسز،ری ٹیل اینڈ ہول سیل بزنس کی مد میں بھی روزافزوں ترقی دیکھنے میں آرہی ہے۔
https://www.straitstimes.com/business/economy/singapore-economy-grows-43-in-q1-on-strong-manufacturing-growth
پاکستانی معیشت کے لاغر اور اڑیل گھوڑے کو سنگاپوری یاچینی ماڈل کی لگامیں نہیں بلکہ اس کے سوار کوامانت دیانت اور صداقت کی لگامیں لگادی جائیں تو یہ گھوڑاصحتمند بھی ہوجائے گا اور اَڑی کرنابھی چھوڑدے گا۔
♦
One Comment