عامر گمریانی
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے اختتام کے بعد جو جمہوری تماشے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان لگے، ان کا منطقی نتیجہ تھا کہ کوئی تیسری قوت اٹھے اور روز بروز وسیع ہوتی سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے۔ اسی نقطے سے عمران خان کا ظہور ہوا اور ملک میں تبدیلی کی آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں جو ہر چند کہ بلند نہیں تھیں لیکن گاہے گاہے سنائی دیتیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتیں۔
خان صاحب نے شاید دریا کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لئے ستانوے کے انتخابات میں غوطہ لگایا لیکن اپنے اندازوں سے کہیں گہرا اور گدلا پانی دیکھ کر خالی ہاتھ ہی پلٹ آئے اور کناروں پر رہ کر طلاطم خیز موجوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ انتخابات میں ناکامی کے بعد خان صاحب نے پشاور میں اپنے اولین کنونشن کا فیصلہ کیا کہ باقی سارے پاکستان نے خان صاحب کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔
پختونخوا میں بکسوں سے چند ووٹ برآمد ضرور ہوئے جن میں سوات سے خان صاحب کے قریب قریب پندرہ ہزار ووٹ بھی شامل تھے۔ یوں پختون عوام نے خان صاحب کو اشارہ دے دیا تھا کہ یہ جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ ٹھیک سولہ سال بعد دو ہزار تیرہ میں پختونوں نے اپنے اولین اشارے کا مان رکھا اور خان صاحب کو اس مرتبہ اشارے کے بجائے دو ٹوک انداز میں بتایا کہ یہ جنگ نہ صرف لڑی بلکہ جیتی بھی جا سکتی ہے۔ آج خان صاحب ملک کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں تو انہیں اڑنے سے پہلے پرفشاں ہونے کی ضرورت ہے کہ بال و پر بوجوہ غبار آلودہ ہوچکے ہیں۔
خان صاحب اور وزیراعظم کی کرسی کے درمیان کا سفر تئیس سال کا ہے۔ اس عرصہ میں خان صاحب نے ایک آئیڈیل (تصوریت پسند) سے ایک رئیلسٹ (حقیقت پسند) بننے کی جانب بھی سفر کیا ہے۔ خان صاحب اگر چہ اب بھی اپنے آپ کو آئیڈیلسٹ سمجھتے ہیں اور بڑے بڑے خواب دیکھنے کی باتیں اب بھی ان کی زبان سے ادا ہوتی ہیں لیکن درحقیقت انہوں نے زمینی حقائق کا بھی ادراک کیا ہے اور بڑی حد تک حقیقت پسند بن گئے ہیں۔ ان کی حقیقت پسندی کے زندہ ثبوت ان کے دائیں بائیں موجود چہروں پر ثبت ہیں۔
لیکن خان صاحب اب بھی تعلیم، صحت، غربت میں کمی، معاشی ترقی، روزگار، انصاف، احتساب، قانون اور مساوات جیسی دلکش اصطلاحات بیان کرکے دلوں کے تار چھیڑتے رہتے ہیں اور اپنی آیئڈیل ہونے کے زبانی ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے خان صاحب کی حقیقت پسندی انتخابات اور حکومت بنانے تک محدود ہو اور اپنے وژن اور مقصد کے حوالے سے اب بھی آیئڈیل اپروچ رکھتے ہوں۔ خان صاحب کتنے حقیقت پسند بن گئے ہیں اور کتنا تصوراتی ترکہ ان کے پاس باقی ہے اس کا فیصلہ خان صاحب کی حکومت کے پہلے سو دنوں میں ہوجائے گا، سو فی الفور کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ہے۔ انتظار کیجئے۔
عمران خان کی سیاست کی ابتدا نہایت رومان پرور تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے ستانوے کے سلیکشن میں پی ٹی آئی کی جانب سے بعض دوسرے درجے کے اخباروں میں اس طرز کے اشتہار نما بیانات شائع ہوئے; ‘ووٹ قومی فریضہ ہے اور اس فریضے کی ملک و قوم کی بہترین مفاد میں ادائیگی آپ پر لازم ہے، ہمارے پاس آپ کو پولنگ سٹیشن تک لانے کے لئے گاڑیاں نہیں ہیں، آپ خود پہنچے اور ووٹ ڈالنے کا فرض ادا کریں’۔
عمران خان کے کتنے ہی بیانات اس وقت ہمارے کانوں میں رس گھولتے تھے ‘ مجھے افسوس ہے کہ میں شیکسپئر سے تو واقف ہوا، لیکن اقبال کو نہ پڑھ سکا’۔ اقبال کے فلسفۂ خودی پر قومی اخبارات میں خان صاحب کے شائع شدہ مضامین سے یوں لگتا کہ خان صاحب دیکھتے ہی دیکھتے اقبالیات کے ماہر بن چکے ہیں۔
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
کبھی کبھار دل میں خیال آتا ہے کہ خان صاحب کے مصاحبین سے ملاقات ہو تو پوچھ لوں کہ خان صاحب کو اب بھی فکرِ اقبال کی بلند پروازی سے کوئی شعف ہے یا پھر طاقتِ پرواز جہانگیر ترین کے جہاز تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
خان صاحب ان دنوں تواتر سے آنحضرت(صلعم) کے انقلاب کی مثال دیتے تھے اور ان ہی کی زندگی کو اپنی سیاسی سفر کے لئے مشعلِ راہ مانتے تھے۔ ریاست مدینہ کی مثال خان صاحب ان دنوں زیادہ تواتر سے دیتے تھے۔ پوچھا گیا کہ ہم پاکستانی کس چیز پر فخر کر سکتے ہیں؟ جواب ملا ‘اپنے لوگوں پر’ خان صاحب ان دنوں پاکستانیوں کو دنیا کے زہین ترین لوگ سمجھتے تھے اور الیکٹیبلز کے چکروں میں پڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
سکینڈے نیوین ممالک کے فلاحی اقدامات کے حوالے دیتے تھے اور پاکستانی جمہوریت کو اسی معیار پر لے جانے کی باتیں کس تیقن اور اعتماد سے کرتے تھکتے نہیں تھے۔ دو ہزار تین کے انتخابات میں اور تو کوئی تیر مار نہ سکے لیکن خود اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ پرویز مشرف کی ریفرنڈم کی حمایت میں آگے آئے اور یوں ان کے تصوراتی عاشقوں کو پہلا دھچکا لگا۔
جنرل مشرف کے سامنے افتخار محمد چوہدری کی جراتِ انکار سے جب ملک کے طول و عرض میں ارتعاش پیدا ہوا اور جنرل مشرف کی مخالفت کی ہوا چل پڑی تو خان صاحب کو پہلی مرتبہ عوامی لیڈر بننے کا موقع ہاتھ آیا۔ انہوں نے جیسے تیسے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔ وکلاء تحریک کے باعث اوّل بینظیر اور بعد میں نواز شریف کی واپسی ممکن ہوئی تو خان صاحب کی چمک دمک ماند پڑ گئی لیکن پھر بھی پہلے سے کہیں بہتر پوزیشن میں تھے۔
اب پتہ نہیں یہ خان صاحب کی حقیقت پسندی تھی یا پھر تصوریت پسندی کہ انہوں نے جماعت اسلامی اور چند دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن کا بائیکاٹ کر ڈالا۔ انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور زرداری صاحب کی بدولت پانچ سال بعد اقتدار ختم ہوا تو پتہ چلا کہ ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی بھی ختم ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی متبادل کی صورت ابھر چکی تھی۔
دو ہزار گیارہ کا تاریخی جلسہ سٹیٹس کو کی قوتوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ جس جلسے سے خان صاحب کا اپنے آپ پر اعتبار کئی گنا بڑھ جانا چاہئے تھا، ہوا اس کے برعکس۔ خان صاحب کی طرف جو بھی موسمی کبوتر گیا، اس کو بغیر کسی چون و چرا قبول کیا گیا۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ تقریباً آدھی پیپلز پارٹی پی ٹی آئی میں شامل ہو چکی۔ نواز شریف کے ساتھ پانچ سال حکومت میں رہنے والوں کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ عطا کرکے نواز شریف کے مقابل لایا گیا۔
ایم کیو ایم اور قاف لیگ سے اتحاد ہوچکا اور ان دونوں جماعتوں کے بارے میں اپنے پرانے خیالات اور ارشادات بھلا کر حقیقت اور عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ دوسری جانب سادگی ، میرٹ، دیانت، ٹیکس کا حصول ، وزیراعظم اور گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیز میں تبدیل کرنے، غیر ضروری پروٹوکول نہ لینے جیسی باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب اب بھی خواب دیکھتے ہیں۔
شائد خان صاحب کی ڈھلتی عمر کا تقاضہ تھا کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے جو بھی مدد جس طرح بھی ملے، قبول کرکے وزیراعظم بنا جائے اور اس عہدے سے ہاتھ آنے والے اختیار کو بروئے کار لیتے ہوئے ان خوابوں کو حقیقت بنایا جائے جو خان صاحب نے اس ملک کے بدنصیب عوام کی آنکھوں میں بسائے تھے۔ ہمیں خواب دیکھنا والا ایک تصوریت پسند وزیراعظم چاہئے، خدا کرے کہ خان صاحب کی حقیقت پسندی ان کے تصوریت پسندی پر غالب نہ آئی ہو اور اس ملک کے کروڑوں باسیوں کے خواب حقیقت کا روپ دھار سکیں۔
♦