جہانزیب کاکڑ
عام طور پر موروثی سیاست کو مخصوص ذہنیت کا شاخسانہ قرار دیکر با آسانی دستبردار ہوا جاتا ہے اور مختلف اَقسام کے سطحی اور ظاہری علامات میں اُلجھا کر اصل مسئلے کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں حالانکہ نہ تو کوئی ذہنیت خلا میں پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی اِسے معاشی وسماجی عوامل سے الگ کرکے سمجھا جا سکتا ہے۔۔
پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں دراصل قبائلی، جاگیردارانہ اور نااہل سرمایہ داری کے معاشی وسماجی رشتوں کے اندر پیوست ہیں جب تک اِن معاشی وسماجی رشتوں پر کاری ضرب نہیں لگائی جاتی تب تک اِس سے جڑی موروثی سیاست و ذہنیت کا بھی خاتمہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ موروثی سیاست اِن مروجہ معاشی وسماجی رشتوں کا براہ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے نہ کہ اِس کی اصل وجہ۔
موروثی سیاست کو قائم رکھنے میں پاکستان کی تاخیر زدہ اور تاریخی طور پر نااہل سرمایہ داری نے بھی اہم کِردار ادا کیا ہے۔موروثی سیاست کو اُکھاڑنے، جمہوریت،سیکیولرازم اور قومی مسئلے کو حل نہ کر سکنے کی اپنی تاریخی نااہلیت کے باعث جہاں اِسے سامراج کا دامن تھامنا پڑا وہاں دوسری طرف اِسے فرسودہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشی ساخت پر بھی انحصار کرنا پڑا،جس کی وجہ سے سیاسی بساط پر نہ صرف قبائلی خوانین، جاگیرداروں اور نکمّے سرمایہ داروں کا راج رہا بلکہ باہمی گٹھ جوڑ سے جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی لوگ بنے رہے۔اِس پر مستزاد یہ کہ موروثی سیاست کو آسمانی جواز فراہم کرنے میں ملّاؤں اور پیروں نے بھی کوئی کم کردار ادا نہیں کیا۔
ریاست جو آخری تجزیے میں انہی قبائلی خوانین، جاگیرداروں اور نااہل سرمایہ داروں کے مفادات کی نگہبان ہے نے بھی موروثی سیاست کو قائم رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑی بلکہ بیوروکریسی ،فوجی حکمرانی، کٹھ پتلی سیاستدانوں، پیروں اور مُلاؤں کے زریعے موروثی سیاست کو قائم ودائم رکھا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں نام نہاد جمہوری سیاسی پارٹیوں نے بھی کرپشن، میرٹ کی پامالی، غیر شفافیت جیسے سطحی مسائل کو اُچھالے رکھا مگر اُن معاشی وسماجی بنیادوں کیطرف کسی نے توجہ نہیں دِلائی جو مذکورہ مسائل اور موروثی استحقاق کو قائم رکھنے کی اصل وجہ بنے ہوئے ہیں۔
اِس وقت پاکستان میں موروثی سیاست کو اُکھاڑنے اور حقیقی جمہوریت کو بحال کرنے کیلئے سب سے پہلا اور ضروری قدم پبلک سیکٹر کی بحالی اور زرعی اصلاحات کا نفاذ ہے۔
یہ ممکن نہیں کہ زنجیروں میں جھکڑا ہوا زرعی مزدور،ہزاروں یا لاکھوں ایکڑ پر مشتمل مالکِ اَراضی کے مقابلے میں انتخابات لڑ سکے اور یا اپنے ووٹ کا آذادانہ استعمال کر سکے۔نہ ہی ممکن ہے کہ سود خور اور ضمیر فروش قبائلی سرداروں اور نوابوں کے دیکھے اور اَن دیکھے سنگینوں تلے کوئی اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے میں آزاد رہ سکے۔
یہ بھی ممکن نہیں کہ مشین کا پُرزہ بننے والا صنعتی مزدور، کرپشن اور بد انتظامی کے نام پر پبلِک سیکٹر کو چاٹ ڈالنے والے صنعتکار کے مقابلے میں انتخابات میں حصّہ لے سکے کیونکہ اِسکو انتخاب لڑنے اور انتخابی مہم چلانے کے لیے مطلوبہ حمایت اور رقم ہی دستیاب نہیں جو انتخابات میں جیتنے کیلیئے پہلا اور اوّلین شرط ہے
لہذا جمہوری سیاسی اور ترقی پسند پارٹیوں کا اوّلین فریضہ ہے کہ قبائلی، جاگیردارنہ اور بے روک سرمایہ دارنہ معاشی وسماجی رشتوں کے خلاف نہ صرف یہ کہ آواز بلند کریں بلکہ اِن کے خاتمے کو اپنے بنیادی مطالبات میں بھی شامل کیئے رکھیں تاکہ ِ پاکِستان سے نہ صرف یہ کہ موروثی سیاست کا خاتمہ کیا جا سکے بلکہ حقیقی اور صحت مند جمہوریت کو بھی پنپنے کے مواقع مل سکیں۔
♦