لیاقت علی
انسانی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی گذراہے جب مذہبی پیشواوں کا اصرارتھا کہ علم وادب پرانہی کا اجارہ ہے اوران کا یہ دعوی تھا کہ ان کی یہ
حیثیت آسمانی قوتوں کی بخشش ہے۔ عام آدمی کا لکھائی پڑھائی میں دلچسپی لینا آسمانی قوتوں کی منشاو مرضی کےخلاف ہےاس لئےعام آدمی کوچاہیےکہ وہ جتنا ہوسکے لکھائی پڑھائی سےدوررہے۔
اسی عقیدے کی بنا پربعض مذاہب اورفرقےایسے بھی تھےجواپنے مذہبی صحائف تک کوعام آدمی کی پہنچ سےدوراورخفیہ رکھنے پریقین رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ محض چند مراعات یافتہ افراد کا استحقاق تھا کہ وہ ان مذہبی صحائف اوران کی تعلیمات کا براہ راست مطالعہ کرسکیں۔
پھروقت بدلا پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اوریکا یک علم وادب مراعات یافتہ افراد کے قبضے سے نکل کرعام آدمی کی دسترس میں آگیا۔ مذہبی پیشواوں نے پرنٹنگ مشین کی مخالفت میں ایڑھی چوٹی کا زور لگایا تھا اسےخدائی کاموں میں مداخلت تک قرار دیا لیکن ٹیکنالوجی کے سامنےکون بند باندھ سکتا ہے،وہ اپنی راہ خود بناتی چلی جاتی ہے۔ پہلے ایک کتاب جسے لکھنے میں مہینوں لگتے تھےاب گھنٹوں میں چھپ کر قارئین تک پہنچنےلگی تھی۔
کتابوں کی اس فراوانی نے مذہبی پیشواوں کی گرفت کو ڈھیلا کردیااوروہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پرمجبورہوگئےاوعوام نے مذہب، سماج اوراپنےارد گرد کے ماحول بارے خود فیصلے کرنا شروع کر دیئے۔ چند صدیاں قبل سال علم وادب میں جوانقلاب پرنٹنگ پریس نےبرپا کیا تھااب وہی انقلاب سوشل میڈیا کی بدولت برپا ہورہا ہے۔
جس طرح مذہبی پیشواوں نے پرنٹنگ مشین کی مخالفت کی تھی اوراسےآسمانی قوتوں کی منشاومرضی کےخلاف ٹھہرایا تھااسی طرح کچھ نام نہاد دانشورسوشل میڈیا پر مختلف سماجی اورسیاسی مسائل بارےاپنے خیالات اورجذبات کا اظہارکرنے والے افراد پرطعن تشنیع کرتے نظرآتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ سوشل میڈیا کو بند تو کروا نہیں سکتے لیکن وہ اپنےغصے اورحسد کا اظہار یہ کہہ کر کرتے رہتےہیں کہ سوشل میڈیا نے’دوٹکے‘ کے افراد کو دانشور بنادیا ہے۔
ان خود ساختہ دانشوروں کو کوئی پوچھے کہ ’دانشور‘بننے کے لئے کہیں سے سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہےاورپھر’دوٹکے‘ کا آدمی دانشورکیوں نہیں بن سکتا۔ سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز نے ہمارے سماج کے لاتعداد افراد کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ مختلف سماجی، معاشی،مذہبی اورثقافتی ایشوزپراپنےخیالات اورنظریات کا اظہارکھل کرکریں۔
قبل ازیں یہ موقع چند سکہ بند دانشوروں کوحاصل تھا جو اپنے خیالات اورنظریات مضامین کی شکل میں اخبارات ورسائل میں چھپواتے تھے اورجنھیں عام لوگوں تک پہنچنے میں کہیں ہفتے تو کہیں مہینے لگتے تھے لیکن اب علم معلومات کی منتقلی ایک کلک دوری پرہے۔سوشل میڈیا کی بدولت اب کوئی فرد اپنے خیالات فوری طورپراپنے دوست احباب سے شئیر کرسکتا ہےاب ہفتوں اورمہینوں انتظارکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوشل میڈیا نے نام نہاد دانشوروں کی دانشوری کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہےاورانھیں اپنی سطحی علم و دانش کا بوریا بسترلپیٹنے پرمجبورکردیا ہے۔اب سوشل میڈیا پرمتحرک افراد وہ سب کچھ جانتے ہیں جوہمارے نام نہاد دانشوروں کے نزدیک خفیہ ہوتا تھا اورجس بارے ان کا دعوی ہوا کرتا تھا کہ صرف انہیں اس تک رسائی حاصل تھی۔
♦