لیاقت علی
کیانواز شریف کی نااہلی پر احتجاجاً صدر ممنون حسین کو مستعفی ہونا چاہیے تھا؟
پاکستان میں اصولوں کی خاطراپنےعہدے سےاستعفی دینے کی روایت بہت ہی کم زورہے بلکہ یہ کہا جائے تودرست ہوگا کہ بالکل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ کہتے ہوئے ماضی کے صدوراورگورنرجنرلز کے مابین باہمی تعلقات کی تاریخ کوبھی پیش نظررکھنا چاہیے تھا۔ پاکستان میں روزاول سے سربراہان مملکت اورسربراہان حکومت کے مابین افسری اورماتحتی کا تعلق رہا ہے۔ یہ تعلقات کبھی بھی برابری کی سطح پراستوارنہیں ہوئے۔
جناح نے لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیراعظم تونامزد کردیا لیکن ان کی حیثیت جب تک جناح زندہ رہے کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں تھی۔ جناح ان کی کارکردگی سےخوش نہیں تھے۔ لیاقت علی خان کی حیثیت جناح کی کابینہ میں زیادہ سے زیادہ سینئروزیرکی تھی۔ جناح کی زندگی میں جتنےبھی کابینہ کےاجلاس ہوتے تھے ان کی صدارت جناح خود کرتے تھے حالانکہ کابینہ اجلاس کی صدارت وزیراعظم کا استحقاق تھا نہ کہ گورنرجنرل کا۔
مختلف محکموں کے سیکرٹریزکو یہ حکم تھا کہ ہرفائل پہلے گورنرجنرل کےپاس جائے گی اوراس کے بعد وزیراعظم کی میزپرپہنچے گی۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان جناح جب تک زندہ رہے ان سے ناخوش رہے تھے اوراسی بنا پرجب لیاقت علی اورچوہدری محمد علی زیارت میں ان کی عیادت کے لئے گئے تو جناح نےان دونوں کی آمد کے بارے اپنی بہن فاطمہ جناح سے کوئی اچھے کلمات نہیں کہے تھےاوران کی آمد کومشکوک مقاصد کا حامل قراردیا تھا۔
جناح کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنرجنرل مقررہوئے۔ وہ اردوسپیکنگ بیوروکریسی اور پنجابی فوج کےسامنے بے بس تھے اور لیاقت علی خان طوروزیراعظم بہت زیادہ طاقتور ہوگئے تھے اوروہ سارے اختیارات جوجناح بطورگورنرجنرل استعمال کیا کرتے تھے اب وزیراعظم لیاقت علی خان نےاستعمال کرنا شروع کردیئے تھے۔ گورنرجنرل خواجہ ناظم الدین محض ربڑسٹیمپ بن کررہ گئے تھے۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین نے خود کو وزیراعظم نامزد کر لیا ان کا خیال تھا کہ وہ بطوروزیراعظم وہی اختیارات استعمال کریں گےجولیاقت علی خان بطور وزیراعظم استعمال کیا کرتے تھے لیکن یہ محض ان کا خواب تھا کیونکہ بیوروکریسی اورفوج نے ملک غلام محمد مرکزی وزیرخزانہ کو گورنرجنرل مقرر کردیا۔ وہ آل پاور فل گورنرجنرل بن گئے اورانھوں نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ربڑ سٹیمپ بنادیا۔
پھر گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیر اعظم کو ڈسمس کرکے انھیں گھر بھیج دیا۔ ملک غلام محمد کو جب فوج نے چلتا کیا تو میجر جنرل سکندر علی مرزا آل پارو فل گورنرجنرل بن گئے اور آنے والے تمام وزرائے اعظم کی حیثیت ان کے ماتحتوں کی تھی۔ وہ جب چاہتے وزیراعظم کو گھر بھیج دیتے تھے۔ اورانھیں اپنے اس ایکشن کے لئے فوج کی حمایت دستیاب ہوتی تھی۔ پھر جب سکندرمرزا نے کمانڈرانچیف جنرل ایوب خان کے ساتھ مل کر ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو ان دو عہدوں کے مابین ایک نئی کشمکش نےجنم لیا۔ جلد ہی اس کشمکش اور تضاد کو فوج نے سکندرمرزا کوان کےعہدے سے معزول کرکے حل کر لیا ۔
جنرل ایوب نے کیونکہ صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام پرترجیح دی تھی اس لئے بطور صدر تمام تراختیارات ان کی ذات میں مرتکز ہوگئے تھے۔ صدر اور وزیر اعظم کے مابین تعلق کی ایک مختلف نوعیت 1973 کے آئین میں سامنے آئی تھی۔ بھٹو صدارتی نظام کے حق میں تھے لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کی بنا پرانھوں نےآئین میں وزیر اعظم کے عہدے میں اتنے زیادہ اختیارات جمع کردیئے کہ صدر محض ربڑ سٹمپ بن کر رہ گیا۔
وزیر اعظم اور صدر کے مابین اختیارات کا یہی وہ تضاد تھا جس کی بدولت اس قسم کے لطیفے گھڑے گئے کہ صدر فضل الہی چوہدری کورہا کرو، صدرچوہدری وزیر اعظم بھٹو کی کار کا دووازہ کھولتے تھے وغیرہ۔ جب بھٹو کی حکومت کو ڈسمس کرکے جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تو صدر فضل الہی نے مارشل لا حکام سے وفاداری اور وابستگی کو ترجیح دی تھی کیونکہ وہ اس عہدےپر اپنی سیاسی مقام و حیثیت کی بدولت فائز نہیں ہوئے تھے یہ تو محض بھٹو کی صوابدید تھی جس کی بنا پروہ صدرمملکت بنے تھے ان سے کسی جرات مند فیصلے کی توقع کرنا کار لاحاصل تھا۔
جنرل ضیا آل پاورفل صدر تھے اورسوائے کورکمانڈرز وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھے۔جب انھوں نے اپنے چنیدہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعطم بنایا تو جلد ہی دونوں کے تضادات کھل کرسامنے آگئے تھےاورجونیجوکوگھرجانا پڑا تھا۔ پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں کسی ایسے صدر کی گنجائش نہیں ہے جو عزت نفس رکھتا ہو جس کا اپنا سیاسی مقام ہواورجومضبوط سیاسی پس منظرکاحامل ہو۔
صدراسحاق کو کیونکہ فوج اور بیورو کریسی کی حمایت حاصل تھی اس لئے اس نے بے نظیراورنوازشریف کوگھر بھیج دیا تھا لیکن جب فوج نے اس کی حما یت سے ہاتھ اٹھالیا تو وہ خاموشی سے گھر چلے گئے تھے۔ اسی طرح صدرلغاری نے فوج کے سربراہ کی اعانت سے بے نظیرکی حکومت ڈس مس کی تھی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت ڈس مس کی تھی تو صدررفیق تارڑنے اسی تنخواہ پرکام کرنے ہی میں اپنی بقا جانی تھی۔
صدر ممنون حسین کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت اور مقام نہیں ہے وہ نواز شریف کے لے پالک تھےاس لئے ان سے یہ توقع کہ وہ مستعفی ہوجائیں گے خام خیال ہے ۔ وہ اپنےعہدے کی مدت پوری کریں گے پنشن پائیں گےاورہمدرد اسمبلی کی صدارت فرمایا کریں گے۔
♦